تحریر شازیہ عندلیب
ہو میرے دم سے ہونہی میرے وطن کی زینت
خیر ٹیبلو کیا تھا وطن سے محبت کا ایک امتحان تھا۔یہ کام بے شک میرے لیے بہت دلچسپ تھا لیکن اس سے ذیادہ یہ مشکل تھا۔اس لیے کہ بچے نئے تھے ان سے کوئی جان پہچان تو تھی نہیں۔مائیں البتہ کچھ کچھ جانی پہچانی تھیں۔ٹیبلو کی ہر ریہرسل مین ایک دو بچے غیر حاضر ہوتے اور ایک دو مرتبہ تو اتنے تھوڑے بچے آئے کہ ریہرسل کینسل کرنا پڑی۔لگتا تھا ٹیبلو نہیں کوئی ڈرامہ کر رہے ہیں۔خیر دو چار بچے تو نکل گئیے کہ انہیں اور انکی ماؤں کو یہ کام مشکل لگ رہا تھا۔ جبکہ کچھ ماؤں کا جذبہ دیدنی تھا۔وہ بڑی باقائدگی سے اپنے بچوں کو لا تی لے جاتی تھیں۔ہم لوگوں نے چار پانچ روز کے لیے فیورست میں ہال بک کروا لیا تھا۔ روبینہ جبین اور ہاجرہ بہت محنت سے بچوں کو ریہرسل کروا رہی تھیں۔یہ دونوں ماں بیٹی ہر سال بڑی محنت سے یوم آزادی پر بچوں کے ٹیبلوز تیار کرواتی تھیں۔پھر ہر ریہرسل پر بچوں اور انکی ماؤں کے لیے ریبینہ کھانا بھی بنا کر لاتی رہی تھیں۔انکے ہاتھ کے کھانے بہت مزے کے ہوتے ہیں۔اکچر ہمارے پروگراموں میں روبینہ کے کچن سے ہی مزیدار دیسی ڈشز تیار ہو کر آتی ہں جو کھاتا ہے انگیاں ہی چاٹتا رہ جاتا ہے۔خیر دیسی کھانوں کی خوشبو کے ساتھ ریہرسل جاری تھی۔غزالہ بھی اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر آتی رہیں۔میرے ذہن میں اپنے بچپن کی فلم اکثر چلتی جب میں بھی اس نظم کے ٹیبلو میں حصہ لیا کرتی تھی۔مجھے اکثر شمع کا رول ملا اکرتا تھا۔اور ہمارے بچپن کے ابتدائے اسکول کے سویرے تو اسی دعا سے شروع ہوا کرتے تھے۔صبح کی اسمبلی میں اسکول کے صحن میں ہر روز سارے بچے بہت لہک لہک کر یہ دلکش نظم پڑھا کرتے تھے۔تب میں بوہڑ بازار کے اسکول ہدائیت النساء اسکول میں کے جی کلاس میں پڑھتی تھی۔جو المعروف حویلی لال حویلی کے پڑوس میں واقع ہے۔یہ میری سب سے بڑی تائی جی کا اسکول تھا۔جہاں میری کزنز ہی میری اساتذہ تھیں۔اصل میں میرے دادا جی تقسیم ہند کے وقت لکھنؤ سے ہجرت کر کے آئے تو پھر راولپنڈی جس کا نک نیم پنڈی ہے میں سکونت پزیر ہوئے۔ٹھیک تیرہ اگست کو میرے بڑے تایا جی کی سربراہی میں ہمارا سو رکنی خاندان جو کہ انڈیا کے مختلف شہروں میں آباد تھا کے ساتھ پاکستان کی جانب عازم سفر ہوئے۔تایا جی شریف چونکہ بہت پڑھے لکھے اپنے زمانے کے یعنی کہ ایف اے تک تعلیم تھی اسلیے سفر سے پہلے انہوں نے پوری پلاننگ کی۔وہ حالات سے با خبر رہنے والے ایک ذہین شخص تھے۔انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ زمینی سفر اس وقت خطرہ سے خالی نہیں۔ اس میں بہت سا جانی نقصان ہو رہا ہے۔آئے دن خونریزی اور بلووں کے واقعات ہو رہے تھے۔اس لیے انہوں نے ہجرت کے لیے بحری جہاز کے ذریعے سفر کا انتخاب کیا اور بحری جہاز کے ٹکٹ بک کروائے۔ ایک ہفتے کی بحری مسافت کے بعد بحری جہاز مسافروں کو محفوظ طریقے سے لیے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔اس وقت اس سفر میں شامل چند افرد ہی خاندان میں بچے ہیں۔مگر اخوشقسمتی سے انہیں قیام پاکستان کی تمام تفصیلات اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی خوب یاد ہیں۔یہ سب عزیز اسی برس سے ذیادہ ہیں۔دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی قیام پاکستان کاا ذکر ہوتا ہے ہمیشہ ہندوؤں کی خونریزی ہی بتائی جاتی ہے جبکہ مسلمانوں نے بھی یہاں سے ہجرت کرنے والے ہندو اور سکھوں کو مار ڈالا تھا۔مگر یہ قتل و غارت گری اس قتل عام کے نتیجے میں آئی تھی جو کہ ہندو اکثریتی علاقوں میں ہوا تھا۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ انڈیا سے لٹے پٹے قافلے آ رہے ہیں انہوں نے بھی یہاں انتقامی کاروائیاں شروع کر دیں۔تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ یہ انڈیا پاکستان کی ہجرت تاریخ کی سب سے خونریز ہجرت تھی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہجرت کو محفوظ بنانے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہ کیے گئے۔اس وقت ذہین برٹش رہنماء کہاں تھے۔لیکن یہ تو شائید اس خظے کے لوگوں کی فطرت تھی جو آج تک جاری ہے مگر اس پر کوئی بند نہ باندھ سکا۔کاش اس وقت کے رہنماء بھی میرے تایا جی کی طرح کوئی پلان بناتے یا پھر میرے تایا جی ہی کوئی لیڈر ہوتے جو سب کو محفوظ طریقے سے ہجرت کرواتے۔
جاری ہے۔۔۔۔