کالم نگار شازیہ عندلیب
اوسلو میں واقع کئی علاقے جہاں مختلف ممالک کا پس منظر رکھنے والے افراد کی اکثریت رہائش پزیر ہے یا پھر کاروباری اداروں کی مالک ہے اب دن بدن جرائم پیشہ افراد کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں سے مقامی نارویجن افراد نقل مکانی کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقے مکمل طور پر تارکین وطن کے علاقے بن جاتے ہیں اور ان علاقوں میں واقع رہائشی اور کمرشل املاک کی قیمتیں مارکیٹ میں یا تو گر جاتی ہیں یا پھر انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یہ عمارتیں اور دوکانیں طویل عرصے تک خالی رہتی ہیں۔
تارکین وطن کے اکثریتی علاقوں میں سر فہرست سب سے پہلے نمبر پر گرن لاند کا علاقہ ہے۔یہاں پر مختلف ممالک کا پس منظر رکھنے والے تارکین وطن آباد ہیں جبکہ دوکانیں بھی تارکین وطن کی ہی ہیں۔ان تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن اب یہاں کے گرتے ہوئے ماحول کے پیش نطر اکثرپاکستانی یہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔جبکہ آہستہ آہستہ یہاں پر صومالین افریقی اور عرب ممالک کے افراد کی تعداد ذیادہ ہو رہی ہے۔جس کے ساتھ ساتھ یہاں جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔یہاں اشیائے خوردو نوش کی بیشتردوکانیں پاکستانیوں کی ہیں جنمیں نور بی فوڈ اسٹور اور پاک مات خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔لیکن اوسلو سینٹر کو گاڑیوں سے پاک شہر بنانے کی مہم اور پارکنگ مہنگی کرنے کی وجہ سے ان دوکانوں پر گاہکوں کی آمدو رفت بہت کم ہو کے رہ گئی ہے۔جس کا حل ان دوکانداروں نے آن لائن سیل کے ذریعے نکالا ہے لیکن یہ طریقہ بھی بہت کامیاب نہیں ہے کیونکہ ان دوکانداروں کے پاس ڈیجیٹل قابلیت کے افراد اور جدید مارکٹنگ اسٹریٹجی کی کمی ہے جس وجہ سے محض آن لائن اسٹور انکی آمدن میں اضافہ کرنے میں ناکام ہے۔
اس کے علاوہ تارکین وطن کے اکثریتی علاقے جو کہ اوسلو کے گردو نواح میں واقع ہیں ان میں استوونر،ہولملیاء،تھوئین، اور لورن اسکوگ وغیرہ شامل ہیں۔ان علاقوں سے بھی بیشتر نارویجن نقل مکانی کر گئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں جائدادوں کی قیمتیں گر گئی ہیں۔
ان علاقوں کا ماحول دیکھنے میں کیسا ہے؟ان علاقوں میں جرائم میں اضافہ کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کہ جرائم میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں اور ان مسائل سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا نہ صرف جاننا ضروری ہے بلکہ تارکین وطن کو اپنی مستقبل کی نسلوں کو برائی سے بچانے کے لیے ان سوالات کا جواب جاننا بہت ضروری ہے۔اس طرح بہتری کی جدو جہد کرنے والے افراد گروہ اور تنظیمیں ناروے کے ماحول کو اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سازگار بنا سکتی ہیں۔یہ تارکین وطن یہاں اپنے وطن اپنے عزیزو اقارب اور گھر بار سے دور بہتر زندگی اور روزگار کی تلاش میں بہت مصیبتیں جھیل کر آئے ہیں۔ اور اگر انہیں یہاں بھی اچھا ماحول نصیب نہ ہو انکی اولادیں بگڑ جائیں اور انکی زندگی میں چین و سکون نہ ہو تو پھر اس ساری جدو دہد کا کیا فائدہ۔ان کے لیے اپنا وطن کیا برا تھا کم از کم وہاں سب انکے اپنے تو تھے۔انسان کو وطن سے دور سب سے ذیادہ اپنے پیاروں کی یاد ستاتی ہیاور وہ یہ دکھ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اٹھاتا ہے۔جبکہ ناروے تو ایسا ملک ہے جہاں بچوں کی صحیح تربیت نہ کرنے کی صورت میں کئی وادین اپنے بچے ہی کھو دیتے ہیں۔بچوں کی صحیح دیکھ بھال نہ کرنے کی وجہ سے حکومت بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔اس طرح کئی خاندانوں کی حالت اور بھی وگرگوں ہو جاتی ہے۔یہ کون لوگ ہیں جن کے بچے بچوں کی بہبود کا ادارہ بارنے ورن اٹھا کر لے جاتا ہے۔ اب جبکہ دنیا میں ناروے بچے اٹھانے والا ملک مشہور ہو چکا ہے۔یہاں بسنے والے تارکین وطن کے لیے اس محکمے کی حقیقت جاننا ضروری ہے۔وہ کون سے خاندان ہیں جن کے بچے اٹھا لیے جاتے ہیں۔یہ وہ خاندان اور جوڑے ہیں جو کسی بیماری کی وجہ سے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر پاتے یا پھر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک نشہ کی لت میں مبتلاء ہے۔ان والدین میں نارویجن بھی شامل ہیں۔اس کے بعد وہ خاندان ہیں جو بچوں کی مار پیٹ کرتے ہیں۔ جبکہ تیسرے نمبر پر وہ افراد ہیں جن کی شکائیت یا تو بچے خود لگاتے ہیں یا پھر کوئی جاننے والا یا پڑوسی وغیرہ اس محکمہ کو لگاتے ہیں۔یہ شکائیت سچی یا جھوٹی ہو سکتی ہے مگر دونوں صورتوں میں بارنے ورن والے اپنی کاروائی ضرور کرتے ہیں یعنی کہ متاثرہ بچے کو اپنی تحویل میں ضرور لیتے ہیں اور شکائیت غلط ثابت ہونے پر بچہ واپس کر دیتے ہیں جو کہ ایک نہائیت مشکل مرحلہ ہے۔بعض اوقات جن والدین کا قصور نہیں ہوتا انہیں بھی اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے مائیں ڈر خوف اور نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتی ہیں۔تاہم یہ اتنا گھمبیر مسلہء ہے کہ اس مسلے کی وجہ سے کئی خاندان ناروے چھوڑ کے جا چکے ہیں اور کئی سخت خوف اور دباؤ کا شکار ہیں اور متاثرہ ماؤں اور بے قصور والدین کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جو اکثریتی علاقے جرائم پیشہ افراد کا مرکز ہیں ان علاقوں میں ذیادہ تر لوگ بہت چھوٹے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔والدین صبح سے شام تک جاب پر اور بچے اسکولوں یا نرسریوں میں رہتے ہیں۔ شامیں پارکوں یا ریستورانوں میں گزرتی ہیں اور گھروں میں صرف سونے کے لیے آتے ہیں۔ان والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا وقت نہیں ہوتا۔وہ گھر سے باہر کس ماحول میں وقت گزارتے ہیں ان کے دوست اور ساتھی کیسے ہیں وہ فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں؟ اس بارے میں والدین کے پاس کوئی معلومات یا جائزہ نہیں ہوتا بہت کم والدین بچوں کے ماحول اور مصروفیات کی نگرانی رکھتے ہیں۔پتہ تو اس وقت چلتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔بچے یا تو بارنے ورن والے لے جاتے ہیں یا پھر کسی غلط کام میں ملوث ہو جاتے ہیں۔جن والدین کی زندگی کا پہیہ چھوٹے گھر ذیادہ پیسہ اور ذیادہ مصروفیت کے گرد گھومتا ہے انکی زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔جبکہ والدین کی ترجیحات مصروفیات اور ٹائم مینیجمنٹ ہی کامیاب اور کوشحال زندگی کا تعین کرتی ہے۔
ان تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں بانٹیں بچوں کی مصروفیات پہ کڑی نظر رکھیں۔انہیں اپنے ساتھ سیرو تفریح کے مواقع دیں تاکہ بچوں کی زندگی میں توازن آئے اور اگر کوئی مسائل پیش آ جائیں تو انہیں کسی اکسپرٹ کی مدد سے حل کریں ان سے کونسلنگ لیں۔تاکہ ایک کامیاب خاندان اور خاشحال معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔