انتخاب عابدہ بتول
انجنئیر ظفر وٹو
دسمبر 2020 سے سٹاک مارکیٹ میں واٹر فیوچرز کے ویسے ہی سودے ہونا شروع ہو چکے ہیں جیسا کہ تیل ، سونا ، گندم وغیرہ جیسی دیگر اجناس کے فیوچرزکے سودے منڈیوں میں ہوتے ہیں ۔ آپ کے گھروں میں پہنچنے والا پینے کا پانی جو کہ ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے تیل کی طرح اب ایک انٹرنیشنل کموڈ ٹی بن چکا ہے۔
ویسے تو اس نیلے گولے کے ایک تہائی حصے پر پانی موجود ہے لیکن اس میں سے 97.5 فی صد پانی نمکین ہے اور صرف 2.5 فی صد میٹھا پانی ہے۔ اس 2.5% میں سے گلیشئیرز اورپہاڑی چوٹیوں پر جمی برف (1.7%) اور زیرِ زمین پانی (0.7%) کو نکال دیں تو صرف 0.1 فی صد پانی مائع شکل میں جھیلوں اور دریاؤں میں موجود ہے۔ عالمی سرمایہ داروں کی نظر اس 0.1 فی صد پانی پر ہے جس پر کنٹرول حاصل کرکے وہ پیسہ کما سکتے ہیں۔ اس قلت پیدا کرکے زیادہ مال کھرا کر سکتے ہیں اور دنیا کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ورلڈ بنک سمیت سارے اہم ڈونر ادارے غریب ممالک میں بڑے ڈیموں کی فنڈنگ اس وقت روک چکے ہیں جس سے پہلے پہلے امیر ممالک اپنے دریاؤں کے تمام ممکنہ مقامات پر ڈیم بنا چکے۔پانی ہی اس صدی کا تیل یا “بلیو آئل “ہے اور پانی ذخیرہ کرنے والے یہ ڈیم اس کی آئل ریفانریاں۔
آج سے پندرہ سال پہلے ناروے کے محکمہ بجلی کے ہیڈ آفس جانے کا اتفاق ہوا تھا تو وہاں ایڈوانس میں کئی سال بعد ممکنہ طور پر میسر ہونے والے پانی کے تخمینے اور اس سے بننے والی بجلی کے خریداری کے لئے سٹاک ایکسچینج میں اپنے سامنے لائیو بولی لگتے دیکھی تو ماتھا ٹھنکا کہ حالات کا طرف جارہے ہیں۔
پانی کی قیمت کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ اس وقت بھی پنجاب کے محکمہ آب پاشی کو صنعتی ادارے صرف ایک کیوسک پانی استعمال کرنے کا کم ازکم ایک کروڑ روپیہ سالانہ ادا کرتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والے ہمارے ملک میں چھوٹی سے چھوٹی نہر میں بھی سو پچاس کیوسک ( سو پچاس کروڑ روپے مالیت کا ) پانی سال کے دس گیارہ مہینے چل رہا ہوتا ہے۔
مستقبل کا ممکنہ منظر نامہ یہ بنتا نظر آرہا ہے کہ ترقی پزیر ملک کے کسی گاوں کا پانی برسوں پہلے کسی یورپی اسٹاک ایکسچینج میں بک چکا ہوگا جب کہ گاوں والے قطاروں میں لگ کر ایم پی اور ایم این کی سفارشی چٹ پراپنے کوٹے کی ایک ایک بوتل کے حصول کےلئے کھڑے ہوں گے۔
آپ کو سستی چینی اور گھی کے لئے یوٹیلٹی سٹوروں پر بننے والی لمبی قطاریں بھول جائیں گی کیوں کہ چینی اور گھی کا متبادل بھی ہے اور یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہیں لیکن پانی، ہوا کے بعد دوسری اہم چیز ہے جس کے بغیر انسان زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
مستقبل میں کھانے کی دعوتوں میں سب سے قیمتی ڈِش پانی کی ایک چھوٹی بوتل ہوگی۔ ایڈوانس میں بک کئے گئے پینے کے پانی کی فائلیں بحریہ ٹاون کے واٹر ڈیلرز سے مل رہی ہوں گی ۔ آئی ایم ایف ہر مہینے پانی کی قیمت بڑھانے کی شرائط رکھ دے گا اور دنیا کے کسی بھی ملک کیلئے سب سے بڑا بنک مستقبل کے لئے پانی ذخیرہ کرنے والا “واٹر بنک” ہوگا جو “ورلڈ بنک” کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہ حالات زیادہ دور نہیں اوراس کی تیاری تو سمجھدار ممالک بیس تیس سال پہلے ہی شروع کرچکے۔
ملائیشیا کا محکمہ آب پاشی آج سے بیس پچیس سال پہلے ہی پورے ملک سے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے پانی کے حجم کی مقدار ہر پندرہ منٹ بعد انٹرنیٹ پر بالکل مفت آن لائن دستیاب کردیتا تھا تاکہ پانی کے بارے میں بروقت فیصلے کئے جاسکیں۔بارش کا سارا پرانا ریکارڈ فری میں دستیاب ہوتا تھا۔
ہمارے محکمہ موسمیات سے بارش کے پانی کا پرانا ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے ایڈوانس میں پیسے کیش ڈیپازٹ کروانے پڑتے ہیں اور پھر بھی پورا ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا۔ جو ملتا ہے وہ بہت مہنگا ہوتا ہے ۔ تقریباً ہزاروں روپوں کی قیمت میں اور وہ بھی کبھی درمیان سے ادھورا ہوتا ہے۔ بارش اور پانی کے جدید ترین آلات پورے ملک میں نصب کرنا ازحد ضروری ہو چکا ہے تاکہ دستیاب وسائل کا بالکل صحیح اندازہ ہو اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکے۔
اگر ہم اسی طرح پینے کے صاف پانی کے حوالے سے غافل رہے تو مستقبل میں عوام کے لئے میلوں دور دریاوں یا تالابوں سے پیدل، جانوروں پر یا گاڑیوں پر پانی لانا ایک انتہائی ضروری کام بن جائے گا جس پر گھر کے ایک فرد کو کل وقتی طور پر کام کرنا پڑے گا۔
پاکستان الحمدللّٰہ صاف پانی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ممالک میں شامل ہے۔ دنیا کے صرف تیس پینتیس ملک ہم سے زیادہ پانی رکھتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہماری ضرورت کا سارا پانی موجود ہے لیکن ہماری واٹر مینیجمنٹ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔
زراعت ہمارا کم ازکم نوے فی صد سے زیادہ پانی پی جاتی ہے جس میں سے آدھا پانی ہم زمین سے پمپ کرتے ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کا سہارا لیتے ہوئے مائکرو مینیجمنٹ اور ہر پودے کے لیول تک جائیں تاکہ فلڈ اری گیشن کے موجودہ طریقے سے ضائع ہونے والا پانی بچ سکے۔
زمینی پانی کی پمپنگ پر پابندی لگا کر اسے ریاستی ذمہ داری میں دے دیا جائے۔اچھی نسل کی فصلیں لگا کر فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائے۔ آبادی کنٹرول کی جائے۔ شہروں، گھروں اور کارخانوں میں استعمال ہونے والا پانی ہر سطح پر بچایا جائے۔ کارواش سروس ا سٹیشنز یا گھروں میں پائپ سے گاڑیاں دھونے پر مکمل پابندی ہو۔ گھروں کے فرش پائپ سے نہ دھوئے جائیں۔
گھروں کا نیلا پانی جیسے وضو کا پانی یا سبزی دھونے والا پانی پودوں کو لگا کر ری سائیکل کیا جائے۔ وضو کا پانی ری سائیکل ( دوبارہ استعمال) ہو۔ بارش کے پانی کو گھروں، میدانوں اور ویرانوں میں ذخیرہ کرنے اور اس سے زیرزمین پانی میں جذب کرنے کے لئے اقدامات ہوں۔
سب سے اہم بات کہ پانی کی اہمیت اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہمارے اسکولوں ، کالجوں، مدرسوں اور جامعات میں ہر کلاس میں خصوصی مضامین پڑھائی جائیں۔ سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلائی جائے۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار سب سے اہم ہے جو گھروں کی واٹر منیجمنٹ کا کنٹرول سنبھال سکتی ہیں اور بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی پانی دوست تربیت کر سکتی ہیں۔
#zafariqbalwattoo