شاعرہ: شعاعِ نور
یہ قید ہے قید با مشقت ،
یہ رسم کیسی ہے ہجر گھر میں، رواج کب سے یہ چل پڑا
دمکتے رخسار سرخ پھولوں سے
رنگ کیسے کشید کرکے نکھر رہے ہیں
یہ مسکراہٹ طواف کرتی دلوں میں کیسے اتر رہی ہے
یہ حکم نامہ دیا تو کس نے
تم اپنے ہر دکھ کو سکھ میں بدلو
سنہرے کنگن جنوں کی پائل
یہ لال غازہ، چمکتی بندیا
گلاب رت میں یہ ڈھلتی صبحیں
یہ اجلی دھرتی، مہکتی شامیں
وصال موسم کی بارشوں میں
جمود توڑا تو کس نے توڑا
یہ خواب دیکھا تو کس نے دیکھا
یہ کیسی تسکین دل ہے سینے سے آکے لپٹی
یہ حرف ساکن میں کیسی ہلچل
ہوائے تازہ کا اذن کیسا
یہ کیسی جرآت کہ دشت سینے میں ایک دریا سمیٹ لائے
یہ سرسراتی ہوا کی سنگت میں
رقص گل نے غضب جو ڈھایا تو کس کی خاطر
فریب دیتا یہ ہجر واپس اب اصل اپنا دکھا رہا ہے
یہ کیا جگہ ہے جہاں پہ مجھ کو
کوئی تو ہے آزما رہا ہے
ذمانے سے ہے یہی روایت
اٹھا گماں کا حسیں تخیل
یہ قید ہے قید بامشقت
یہ شعلگی کو شباب دینے کی آرزو کو یے کس نے کھینچا
یہ کس کے سینے سے لگ کے تم
یوں دھڑکتے دل میں اتر رہی ہو
یہ کس کے لفظوں کی ساحرانہ ادا نے تم کو کیا ہے گھائل
یہ کون میرا ہوا ہے قاتل
یہ ہجر گھر سازشوں سے کیسا اٹا پڑا ہے
تو بے طلب تھی تو کس طلب کی گداز بانہوں میں جھولتی یے
وصال سینے سے لگ کے ہر پل تو ہجر کو کیسے بھولتی ہے
میں دیکھتا ہوں یہ کس کی مسند پہ رقص بسمل کا شوق جاگا
تجھے یہ کس نے کہا کہ زنداں میں آخری شب کے بعد سورج
کسی بشارت کے ساتھ تجھ کو
یہیں ملے گا
تجھے یہ کس نے کہا کہ پہلا گلاب تو بس یہیں کھلے گا
تجھے یہ کس نے کہا کہ تجھ میں گھلی محبت فسردگی کی
لباس بدلے وصال موسم میں گنگناتی ہوئی ملے گی
نوید کس نے تجھے سنائی کہ سرخ پھولوں کا فیصلہ ہے کہ تیرے رستے میں جاں لٹائیں
قریب آ اے حسین لڑکی
یہ تیری آنکھیں جو گہرے ساگر کو مات کرتیں تلاشتی ہیں
وصال موسم
وہ مجھ میں ضم ہے
میں ہجر ترا کہاں کہاں سے پکارتا ہوں بتا یہ کم ہے