کس طرح مستِ گراں خواب کے تیور جاگے
(تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اور آئی کیوب قمر خلائی مشن کے حوالے سے چند سطور)
راجہ محمد عتیق افسر
مئی 2024 کا آغاز دو خوشخبریوں سے ہوا پہلی خوشخبری تو یہ کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب
کے کان پہ جوں رینگ گئی ہے اور انہوں نے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے ۔یہ یقینا
ایک خوش آئیند بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا ہے ۔دوسر ی بڑی
خوشخبری سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان سے آئی ہے کہ پاکستان نے چاند کی تسخیر کے لیے
خلائی مشن "آئی کیوب قمر "روانہ کر دیاہے ۔ اس کی کامیابی کے بعد پاکستان ان چند ممالک کی
صف میں کھڑا ہو جائے گا جو چاند نوردی کر چکے ۔یہ محض اہل پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ
تمام مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہے کیونکہ پاکستان چاند نوردی کرنے والا مسلم دنیا کا پہلا
ملک ہو گا۔ جب ان خوشگوار لمحات کی یاد آتی ہے تو تاریخ دو صدیاں قبل کے ماضی کو بھی
سامنے لے آتی ہے جب انگریز سامراج کے سامنے آخری چٹان بنے شیر میسور سلطان فتح علی خان
ٹیپو اپنی سپاہ کے روبرو جلوہ افروز ہیں اور تکبیر کی گونج میں ایک غیر مانوس سی آواز(کشوں۔۔۔۔)
آتی ہے ایک آگ کا گولہ ہوا میں بلند ہوتا ہے اور اپنے ساتھ ایک آہنی تلوار کو لیے دو تین میل دور
جا گرتا ہے اور تلوار زمین میں پیوست ہو جاتی ہے ۔ یہ آہنی تلوار دنیا کا پہلا راکٹ(میزائل) تھا جو
سلطان ٹیپو نے ایجاد کیا تھا۔اسکا نام کشون رکھا گیا ۔حالات کی سنگینی کے تحت اسے جلد ہی
فوج کے سپرد کیا گیا ۔ اس کے چلانے کی تربیت دی گئی اور اسکے ماہر فوجیوں پہ مشتمل رجمنٹ
تیار کر لی گئی ۔ خلائی مشن کی روانگی سے یوں لگا جیسے ٹیپو سلطان کا مشن جو انکی شہادت
4 مئی 1799 سے اب تک ادھورا تھا پایۂ تکمیل کو پہنچ رہاہو ۔ اقبال کہتے ہیں :
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
4مئی 1799ء کا دن وہ سیاہ دن ہے جہاں سے برصغیر پاک و ہند کی غلامی کا آغاز ہوتا ہے
۔انگریز نام کی ایک لعنت اس سرزمین پہ مسلط ہو جاتی ہے اور وہ دور غلامی بیت گیا جو ملت کی
خودی کو پیت گیا ۔ اگر میر صادق اور میر جعفر ہماری تاریخ کا حصہ نہ ہوتے اور ٹیپو سلطان
انگریز نام کی لعنت کو ہندوستان سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقین جانیے کہ ہم دو صدیاں
پیشتر چاند کو مسخر کر چکے ہوتے ۔
یہ محض جذباتی کلمات نہیں ہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انگریز نام کی اس لعنت کے یہاں آنے
قبل برصغیر کی 85 فیصد سے زائد آبادیتعلیم یافتہ اور ہنرمند تھی ۔ یہاں جہاز سازی کی صنعتیں
تھیں ، یہاں ریشم کی صنعت تھی یہاں کپڑے کی صنعت تھی یہاں چمڑے کی صنعت تھی گھڑی
سازی کی صنعت خود ٹیپو سلطان نے قائم کی تھی ۔ یہاں کی زمینیں سونا اگلتی تھیں ۔ آج کے
متجددین اپنی تاریخ میں نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔وہ پتھروں کے درو دیوار کے آثار تلاش کرتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آکسفورڈ اور ہارورڈ کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں اس وقت ہمارے
حکمران تاج محل تعمیر کروا رہے تھے ۔ان عقل کے ماروں کو یہ سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ جس
وقت آکسورڈ اور ہارورڈ کی بنیادیں رکھی جا رہیں تھیں اس وقت ہماری درسگاہیں ایسے انجنیئر پیدا
کر رہی تھیں جو تاج محل جیسے عجوبے تعمیر کرتے تھے ۔یہاں کا ہر شخص بابغہ روزگار تھا اور
یہاں کے علماء اپنی ذات میں خود ایک دارالعلوم اور ایک یونیورسٹی تھے ۔لیکن اس قوم کو محکوم
رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ اسے تعلیم کی دولت سے محروم کر دیا جاتا۔ لہذا لارڈ میکالے کا
لایا ہوا نظام تعلیم رائج ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک نا خواندہ ہو کر رہ جاتا ہے اور جب یہ
انگریز نام کی لعنت اس ملک سے رخصت ہوئی اس وقت برصغیر کا 14 فیصد طبقہ خواندہ تھا ۔
قیام پاکستان کے فورا بعد ہی تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ ہو جانا چاہیے تھا لیکن انگریز سامراج کی تیار
کردہ افسر شاہی نے ایسا آج تک ہونے نہیں دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود
بھی ہماری آبادی کا بڑا حصہ یعنی دو کروڑ سے زائد بچے ایے ہیں جو سکول کی نعمت سے مھروم
ہیں اور وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہی نہیں۔ جنہیں یہ سہولت میسر بھی ہے وہ بھی تعلیم برائے تعلیم
ہی ہے ۔ اس کے معیار پہ بات کی جائے تو اسے تعلیم کہنا بھی شاید مناسب نہ ہو۔ حکومتی سرپرستی
میں چلنے والے سرکاری اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہےتو نجی شعبے نے تعلیم کے نام پہ بازار گرم
کر رکھا ہے ۔ ایک مافیا ہے جو تعلیم کے نام پہ ادارے قائم کر کے بیٹھا ہے اور سندیں فروخت ہوتی
ہیں جو حسب منصب و مراتب مختلف ہوتی ہیں ۔ طبقاتی نظام تعلیم نے قوم کو مزید ٹکڑوں میں
تقسیم کر دیا ہے ۔نہ ہی ہماری نظریاتی بنیادیں مستحکم ہیں ، نہ اخلاقی بنیادیں اور نہ ہی علمی۔ایسی
صورتحال تقاضا کر رہی ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا جائے اور ترجیحی بنیادوں پر
تعلیم کے شعبے کے لیے انقلابی اقدامات کیے جائیں تاکہ قوم اپنے گمگشتہ مقام کو پا سکے ۔
کبھی جو راہ دکھاتے تھے ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہداں کے لیے
تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اس جانب ایک احسن اقدام ہے لیکن محض اعلان ہی کافی نہیں اس کے لیے
عملی اقدامات کی ضرورت ہے مثلاً۔
1. سب اے پہلے تو تعلیم کو عام کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ ایسے اقدام
کیے جائیں کہ کوئی بھی شہری تعلیم سے محروم نہ رہے ۔ میٹرک تک تعلیم لازمی قرار دی
جائے ۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ کاغذات کی حد تک لازمی کی جائے بلکہ حقیقی طور پہ اسکا
حصول لازمی ہو اور اس کے بغیر شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اوراور روزگار کو
ممنوع کر دیا جائے ۔
2. تعلیم مفت اور آسان ہو تاکہ ہر کسی کی پہنچ میں ہو ۔
3. تعلیم قومی اور دینی اقدار کی حامل ہو یہ نہ ہو کہ مغربیت کا طوفان بدتمیزی تعلیم کہ نام پر
لا کر قوم پہ مسلط کیا جائے اور لوگ اس کے شرسے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے پہ
مجبور ہو جائیں ۔
4. نصاب تعلیم قومی تقاضوں کے تحت وضع کیا جائے اور قومی زبان میں ہو تاکہ قوم اس
کے فوائد سمیٹ سکے اور ترقی کی راہیں کھل سکیں ۔
5. پیشے اور ہنر کو تعلیم کا جزو قرار دیا جائے اور ان سے منسلک افراد کو ان کے پیشے
اور ہنر کے مطابق تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے روزگار کو ترقی دے سکیں اور بے
روزگاری سے ملک کو نکالا جا سکے ۔
6. ملک کا طول و عرض زرخیز زمینوں پہ مبنی ہے ۔ تعلیم میں زراعت کو خصوصی اہمیت
دی جائے تاکہ نونہالان وطن اس کے ہر ایک ذرے کو چمکا سکیں ۔ ملکی پیداوار میں اضافے
کا باعث بنیں اور ہم خودکفیل بن سکیں ۔
7. تعلیم کو عام کیا جائے لیکن اس کی مقدار کے ساتھ اس کے معیار کو بھی بڑھایا جائے تاکہ
ہر شعبے میں معیاری اور قابل پیشہ وران دستیاب ہوں۔
8. تعلیم مبنی بر اخلاق ہو اور اخلاقیات کا عملی مظاہرہ طلبہ و طالبات سے کرایا جائے تاکہ
ایک اعلی و ارفع قوم کی حیثیت سے ہم اقوام عالم کے سامنے کھڑے ہو سکیں ۔
چاند کی جانب ہم نے جس سفر کا آغاز کیا ہے یہ بھی ہماری نئی کاوش نہیں ہے ۔ 1962 میں
پاکستان نے خلاء نوردی کے سفر کا آغاز کیا تھا اور اپنا مشن "رہبر 1"خلا ء میں بھیجا تھا ۔ اس
وقت خطے میں ہم سب سے پہلے خلاء نورد ملک کی حیثیت سے ابھرے تھے ۔ لیکن یہ برتری ہم
قائم نہ رکھ سکے ۔ ہم نے میزائل ٹیکنالوجی کے سارے وسائل دفاعی مقاصد پہ صرف کر دیے
اگرچہ وہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ لیکن ہمیں ہرشعبہ زندگی پہ مناسب توجہ مرکوز رکھنے
کی ضرورت ہے ۔ تحقیق کی دنیا بھی وسائل کی متقاضی ہے لہذا اس پر بھی بھرپور وسائل صرف
کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر خلائی تحقیق پر توجہ اسی طرح مبذول ہوتی تو آج ہماری منزل چاند
کے بجائے کوئی اور کہکشاں ہوتی ۔جو ملک خلاء تک رسائی حاحل کر لیتا ہے اس کے لیے دنیا کے
کسی چپے تک میزائیل پہنچانا مشکل نہیں رہتا۔مستقبل میں اس شعبے پر خاطرخواہ توجہ رکھنے کی
امید کی جاتی ہے بقول شاعر ۔
تھا کوئ راز سے واقف تو وہ مہتاب ہی تھا
کیسے اِس آدمِ خاکی میں یہ شہپر جاگے!
آسمانوں میں یہ پھر چاند نے سرگوشی کی
کس طرح مستِ گراں خواب کے تیور جاگے
"تھی اسی فکر میں، سیماب طبیعت اس کی
سوئے گر آج زمیں پر، تو فلک پر جاگے !!
تعلیمی ایمرجنسی اور خلائی مشن کی روانگی خوش آئند ہیں ہمیں مزید آگے بڑھ کر استعمار کی
لگائی گئی پنیریوں کو تلف کرکے ایسا نظام لانا ہوگا جو ہماری ترقی اور عروج کا ضامن ہو ۔ہمیں
اجڑے چمن کو دوبارہ آباد کرنا ہے اور ایسا نظام وضع کرنا ہے جو ٹیپو سلطان جیسے شاہیں پیدا
کرے نہ کہ بربادی چمن کے لیے ہر شاخ پہ الو صفت میر صادق بٹھا دے ۔ اگر ہم جوان نسل کوخود
انحصاری اور خودداری پہ مبنی تعلیم و تربیت دینے میں کامیاب ہو گئے تو مستقبل میں ہم تمام تر
اقوام عالم میں نمایاں ہوں گے اور اگر ہم نے اس میں غفلت کا مظاہرہ کیا تو ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔