عمران خان کا ہیلتھ کارڈ

باعث افتخار – انجینئر افتخار احمد چودھری**

لقمان شاہ میری ابائی دھرتی ہزارہ کے ایک نوجوان صحافی اور درد دل رکھنے والے ہزارے وال ہیں۔ ابر ہزارہ سے تعلق رکھنے والے، پنڈی میں اپنی صحت کا خوبصورت مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں ہمیشہ ایک ایماندار صحافی پایا ہے اور صحافی سے زیادہ وہ ہزارہ کا درد دل رکھتے ہیں۔ انہوں نے آج فیس بک پہ ایک سوال پوچھا ہے کہ آپ میں سے کون سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہیلتھ کارڈ سے فائدہ اٹھایا ہے؟ میں نے اپنے سینے کی ایک تصویر انہیں بھیجی ہے کہ ان فائدہ اٹھانے والوں میں میں بھی شامل ہوں۔

مجھے سعودی عرب میں آئے ہوئے تقریباً دو مہینے ہو گئے ہیں اور اس سے پہلے تقریباً دو سال پہلے میرا ہارٹ کا بائی پاس ہوا تھا جو میں نے راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں کرایا تھا۔ میں اللہ کے حضور جب حاضر ہوا تو میں نے ان ڈاکٹروں کے لیے بھی دعا کی اور جنہوں نے ہسپتال بنایا ان کے لیے بھی اور پھر اپنے قائد عمران خان کے لیے خاص دعا کی کہ جنہوں نے عام لوگوں کے لیے، غریب لوگوں کے لیے یہ سہولت فراہم کی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ سرکاری ہسپتال میں جاؤں گا تو پتہ نہیں کتنے مرحلوں سے گزرنا ہوگا لیکن جب وہاں پہ گیا تو صرف ایک شناختی کارڈ مجھ سے مانگا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اس سے پہلے چیک کیا تھا اور ڈاکٹر عمران نے یہ تجویز دی تھی کہ افتخار صاحب آپ کا بائی پاس ہوگا۔ بائی پاس کا نام سن کے ہی مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے اداس دل سے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب میری جگہ ہوتے تو آپ کس کو سجیسٹ کرتے؟ تو انہوں نے کہا، میں اپنے والد صاحب کو بھی یہی کہتا کہ بائی پاس کروا لیں، اچھا موقع ہے۔ اور انہوں نے ار آئی سی کے دو ڈاکٹروں کا نام لیا، جن میں سے میں نے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو چنا۔ اس سلسلے میں میری فیملی بڑی کام آئی، میرے بھانجے بھتیجے سب نے اپنے اپنے تعلقات استعمال کیے، لیکن میں نے داخلے کے وقت یہ محسوس کیا کہ اگرچہ مجھے ایک خاص کمرہ دے دیا گیا، لیکن جب آپریشن تھیٹر میں لے جایا جا رہا تھا تو میں نے اسی عام وارڈ میں داخل ہونے والے اپنے مریض بھائیوں کو اپنے دائیں بائیں دیکھا۔

پھر مجھے ایسے لگا کہ نہ تو مجھے پاکستان تحریک انصاف کا ایک لیڈر ہونے کی حیثیت سے کوئی خاص دلچسپی دکھائی گئی اور نہ ہی ہماری سفارش کام آئی، کیونکہ انتظامات ہی اتنے اچھے تھے کہ کوئی گلا کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ایک بڑے خوبصورت نوجوان نے، جس کا مجھے ابھی نام یاد نہیں آرہا، بڑے لمبے تڑنگے اور ویل بیلٹ نوجوان تھا اور ان کا نام میرا خیال میں عرفان تھا یا عمران تھا۔ جب ہم داخل ہونے کے مرحلے میں گئے تو انہوں نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ آپ کی کوئی سفارش ہے یا نہیں؟ تو میں نے ان کو جواب دیا، کس قسم کی سفارش آپ کو چاہیے؟ وہ کہنے لگے کسی ڈاکٹر کی یا سیاسی بندے کی یا کس کی؟ میں نے کہا کہ سفارش تو بہت ہے، عمران خان کی بھی سفارش ہے، وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی بھی سفارش ہے، گورنر عمر سرفراز چیمہ کی بھی سفارش ہے، لیکن میں سفارش استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ اس نوجوان لڑکے نے مجھے وہاں بٹھا لیا اور کہنے لگا کہ آپ کون ہیں؟ تو میں نے پھر تھوڑا سا تعارف کرا دیا کہ میں عمران خان کا ساتھی ہوں اور یہ جو عوام کو دی گئی سہولتیں ہیں یہ دینے والوں میں میں بھی شامل ہوں، پنجاب گورنمنٹ کا ترجمان بھی رہا ہوں۔ تو اس نے کہا، جی آپ نے کوئی اتنا کوئی شور شرابہ نہیں کیا، کوئی ڈاکٹر صاحب کو لے کے آپ کیوں نہیں آئے؟ آپ تو ایک لائن میں لگ کے سارے ٹیسٹ کرائے ہیں اور ڈاکٹروں کو بھی دکھایا ہے۔ کسی جگہ فیس دینی ہوئی تو فیس دی ہے، کسی جگہ مفت علاج کرانا ہوا تو مفت علاج کی سہولت لی ہے، آپ نے بغیر کسی سفارش کے۔

تو میں نے نوجوان کو یہ کہا کہ یہی تو ہے اپنا پن کہ ہم ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جو عام آدمی کو اس کی سہولت ملے۔ اور دوسرا سوال اس نے یہ کیا کہ آپ کب کرانا چاہتے ہیں؟ تو میں نے کہا جو آپ کا اصول ہے، جو ٹائم ہے اس کے مطابق کریں۔ ڈاکٹر صاحب بھی کمال کے تھے۔ جب میرا ٹیسٹ ہوا تو میں اداس تھا اور پریشان تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ ڈپریشن میں کیوں چلے گئے ہیں، وجہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب، میں نے اپنے دائیں اور بائیں پڑے مریضوں کو دیکھا، سب کے سٹنڈ ڈال رہے تھے اور میرا ہی آپریشن تجویز ہوا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر نہیں آپ ادا کرتے کہ آپ کے دل کو کھول کے اچھے طریقے سے اس کا علاج کر دیا جائے بجائے اس کے کہ آپ آج سٹنڈ لیں اور پھر اگلے دن یا سال یا دو سال بعد پھر یہ آپریشن تک جائیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں اگر کوئی زیادہ تکلیف ہو تو آپ کا گھر نزدیک ہی ہے، آجائیں۔ اور پھر میں نے درخواست کی کہ مجھے جلد از جلد آپریشن کے مرحلے سے گزارا جائے، میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔

ڈاکٹر صاحب نے دو چار باتیں اور کیں اور میں نے اجازت چاہی۔ اب میں بھی یاد کرتا ہوں، یہاں پچھلے دنوں آپ نے سنا ہوگا کہ سونے کی فیکٹری کا مالک جس نے حرم میں کعبہ کا دروازہ بنایا ہے اور اوپر پرنالہ بھی، ملک عاشق حسین، دل کا آپریشن کرانے کے دوران اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ ان کا آپریشن یہاں کے نجی ہسپتال میں شام کے ڈاکٹر نے کیا تھا اور دو تین دفعہ دل کھولا اور آخر کار ملک عاشق حسین اسی راستے پہ چلے گئے جس پہ سب نے جانا ہے۔ اللہ نے ہمارے ہسپتالوں میں اور سرکاری ہسپتالوں میں اس قدر تجربہ کار لوگوں کو وہ ڈاکٹر بنا دیا ہے جن کی کامیابی کی شرح 99.9 فیصد ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہاں پہ ڈاکٹر ٹھیک نہیں ہیں، لیکن تجربہ یہ ہے کہ 1995 میں جب میرا میڈیکل ایشو ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے سیدھی ڈرل میرے سینے میں گھما دی۔ اس کا خیال یہ تھا کہ مجھے بلڈ کینسر ہوگیا، جو کہ گوجرانوالہ کے ڈاکٹر اکرم راجپوت، مولوی نوری صاحب کے ساتھ عمرہ کرنے آئے تھے۔ تو انہوں نے مجھے دیکھ کر یہ کہا کہ یہ تو معمولی سی بات ہے، فولک ایسڈ لو اور پانی پیو اور اللہ کا نام لو، کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ اور پھر میرا ٹرانسفر ہوگیا مدینہ منورہ میں اور روضہ رسول پہ پانچ نمازیں پڑھتا تھا، گھر سے پیدل جا کے۔ تو اللہ نے کرم کیا کہ چھ سات مہینے میں میرے ٹیسٹ صحیح ہوگئے۔ میرے پلیٹلیٹس پازیٹو سائیڈ پہ 500 فیصد زیادہ تھے، جن کی علاج کے لیے میاں نواز شریف ادھر چلے گئے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب اللہ ان کو جنت میں جگہ دے، ان جیسے کئی ڈاکٹر پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

بہرحال میں داخل ہوگیا اور میرے دائیں وہی لڑکا آپریشن تھیٹر پہ میرے ساتھ ہی گیا جو گوجرخان کا رہنے والا تھا اور کہتا تھا کہ میں چھوٹا سا تھا تو میرے دل میں سوراخ تھا۔ آج 22 سال کی عمر میں میرے پاس وہ وقت آیا ہے کہ اس ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے میں آپریشن کرا سکتا ہوں، ورنہ 10-15 لاکھ کون لگاتا؟ اور میری کسی نے سنی بھی نہیں تھی۔ کون کسی کو پیسہ دیتا ہے؟ اور پھر میں نے اس سے پوچھا کہ اللہ نے آپ کو ٹھیک کر دیا تو آپ کیا کرو گے؟ اس نے کہا کہ میں سوزوکی لے لوں گا قسطوں پہ اور اس کو چلایا کروں گا۔ یہ خواب ہیں ہمارے پٹوار کے لوگوں کے جو فارم 47 کے مطابق جیتے ہوئے لوگ ہیں، انہوں نے پوٹھوہار کو کیا دیا؟

بہرحال اس کا بھی آپریشن ہو رہا تھا اور دائیں طرف میرا بھی آپریشن ہو رہا تھا۔ جانے سے پہلے میں نے اس فرش کو دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ ایپوکسی پینٹ کہاں سے کرایا ہے؟ وہ پاس کھڑا ایک سپروائزر تھا کہنے لگا، آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں نے کہا یار، میں بھی انجینئر ہوں، اچھی ورکشاپوں میں کام کیا ہے، وہاں کی ورکشاپوں میں یہ رنگ کرایا جاتا تھا۔ پھر ان سے اجازت لی، واش روم گیا، گپ شپ کر رہا تھا تو وہ لوگ مجھ سے باتیں کر رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ یار بزرگوں، ہمیں یہ تو بتاؤ کہ آپ کو اتنا کانفیڈنس کہاں سے آ گیا؟ آپ ہنس رہے ہیں، کھیل رہے ہیں اور ساتھ میں ہنسی مذاق بھی جاری ہے۔ یہ نوجوان جو ہے یہ پریشان ہیں، ان میں اقبال گلگتی بھی تھا جو اج کل میرے ساتھ فیس بک پہ رابطے میں ہے۔ تو میں نے ان کو ایک بات سنائی، مختصر سی بات، میں نے یہ کہا کہ میرے ایک دوست اشفاق سیٹھی صاحب گجر برادری کے بڑے تلے دار بندے تھے، بڑا نفیس، ایک دو گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں، خود ہی چلاتے تھے، لیکن جمعرات جمعہ کو ان کو دیکھنے والے ہوتے تو وہ دیسی کسرت کیے ہوئے، شلوار قمیض پہنتے، تو ویل کی قمیض ہوتی تھی، جس کو آج کل مل کہا جاتا، بہت خوبصورت لگتے تھے۔

تو وہ بیمار ہو گئے، ان کا ایک گردہ فیل ہو گیا، باقی ایک ہی بچا تھا۔ تو میں نے ان کو فون کر کے کہا تمہارے والد صاحب بیمار ہیں، میری ان سے بات کراؤ۔ اور اس نے میری ان سے بات کرائی۔ میں نے کہا کہ سیٹھی صاحب، بہت افسوس ہوا ہے کہ آپ کا ایک گردہ فیل ہو گیا، یہ ہمارے جو ننیالی رشتہ دار تھے جن کے کراچی اور لاہور میں پنڈی میں ٹرکوں کے اڈے ہیں، جن کو ہمارے دوست شہریار ریاض بھی جانتے ہیں۔ تو اشفاق صاحب نے مجھے کہا کہ چوہدری صاحب، میری عمر 64 سال ہو چکی ہے اور میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے 64 سال تک مجھے دو گردے سلامت دیے۔ آج ایک فیل ہو گیا ہے تو کیا گلا کرنا؟ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے دوسرے گردے پہ میں چل رہا ہوں اور نہ بھی چل سکا تو اللہ کو پیارا ہو جاؤں گا۔ میں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبعی عمر کے مطابق جو دنیا کے سامنے ہے، وہ گزار چکا ہوں۔ میرے لیے دعا کیجئے۔ میری دعاؤں کو قبول ہونے سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے چلے گئے۔

تو میں نے ان لڑکوں کو کہا کہ کیا ہوگا یار، میری عمر اس وقت 66 سال ہے۔ اگر میں چلا بھی جاتا ہوں تو کوئی بات نہیں۔ بہرحال وہ کچھ اس طرح کی باتیں کرنے لگے کہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے بہلا رہے ہیں اور پھسلا رہے ہیں۔ میں نے کہا، او یارو، اگلی فکر کرو، مجھے تم اس طرح کے فقرے مت بولو۔ بے ہوش تو میں نے ہونا ہی ہے، تو دعا کرو اللہ تعالیٰ خیر خیریت کرے، خیر سے جائیں اور خیر سے واپس آئیں۔

پھر اللہ نے کیا، میرا آپریشن ہو گیا اور بہت ہی اچھا آپریشن ہوا۔ تھوڑا بہت ملا شکوہ مجھے ایک دو نرسوں سے ہوا، بہرحال وہ کوئی بات نہیں ہے، ہو جاتا ہے۔ اتنے بڑے ہسپتال میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں ناک چڑھے لوگ۔ پھر اللہ نے مجھے وارڈ میں بھیجا، وہ لڑکا بھی وارڈ میں آگیا، گوجرخان والا۔ ہاں، البتہ گوجرخان والے کے ساتھ ہی ایک فوجی وہاں پہ داخل تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، بھئی تم فوجی، ادھر کیا کر رہے ہو؟ تمہارا علاج ادھر کیوں نہیں ہوتا فوج کے ہسپتال میں؟ تو وہ کہنے لگا، مجھے ان پہ اعتبار نہیں ہے۔ میں ایک چھوٹا افسر رہا ہوں، میں کہوں، میرا وہ علاج نہیں صحیح کریں گے، تو میں ادھر آگیا۔

جی فوجی بھی وہیں سے علاج کرا کے آیا۔ لقمان شاہ صاحب، آپ کو پتہ ہے کہ ہم سچ بولتے ہیں۔ خدا کی قسم، میں جب اے ایف آئی سی میں گیا تھا تو انہوں نے مجھ سے وہ چھ لاکھ روپے مانگے تھے اور میں اتنا مطمئن بھی نہیں تھا۔ وہ جرنیلوں کی وردی میں تو بندے کو دیکھتے ہیں اور بندے کو خوشی محسوس ہوتی ہے کہ جنرل صاحب نے مجھے دیکھا ہے، لیکن کبھی ان جنرل صاحب سے جا کے یہ پوچھو کہ تم اپنے عزیزوں کو، بچوں کو کہاں سے آپریٹ کرو گے؟ تو وہ کہے گا کہ یہ جو راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے، وہاں پہ جائیں گے ہم لوگ۔

بہرحال، بات آپ کے سوال پوچھنے پہ چھڑی ہے اور میرے لیے بڑا خوشی کا موقع تھا۔ تیسرے، چودھویں دن خان صاحب نے مجھے فون کیا، پورے ہسپتال میں خبر پھیل گئی کہ عمران خان نے کسی شخص کے بارے میں فون کیا ہے۔ حالانکہ خان صاحب کے بارے میں زیادہ مشہور یہی ہے کہ وہ کسی کا نہیں پوچھتے، اور میرے لیے انہوں نے ڈھیروں دعائیں کیں اور ان کو میں نے ڈھیروں دعائیں دیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ علاج تو میرا ہو گیا ہے، لیکن انجینئر افتخار چوہدری اب سڑکوں پہ کھڑے ہو کے نعرے نہیں لگا سکتا۔ اب یہ ظالم اس قدر ظالم ہیں کہ ایک شخص کو حج کے لیے نہیں آنے دے رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حج پہ آئے گا اور یہاں پہ پاکستان میں واپس نہیں جائے گا۔ او بھائی، جنہوں نے آپ کی اتنی زیادتی، اتنا ظلم برداشت کیا ہے، تو وہ پاکستان میں ہی رہے گا۔ اس نے یوگنڈا جا کے چلے جانا ہے؟

کسی کو مارنا ہو تو آپ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ کینیا میں مارنا، سعودی عرب میں مارنا، فلاں جگہ پہ مارنا۔ آپ ہی تھے نا، ارشد شریف کو کیسے مارا؟ آپ نے یہ ڈنگہ لگا کے اس کو بھگایا متحدہ عرب امارات سے اور کہا کہ نکلو، فوراً نکلو۔ اور وہ کینیا چلا گیا اور جا کے وہاں اللہ کو جان دے دی۔ عمران ریاض کی ہے، بہت بڑی اچھی ہے کہ بہت سارا وقت گزار لیا اس نے اور تھوڑا سا ہے۔ ہو سکتا ہے ایک گھنٹہ ہی ہو، تو اس کو جانے دیں۔ یہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے، عظمیٰ ریاض کے ساتھ بھی یہ ہو چکا ہے۔ پچھلی دفعہ اس کو بھی نہیں آنے دیا گیا۔

بہرحال، بھائی جان، یہ ایسا اچھا کام تھا جو تحریک انصاف کے چیئرمین اور تحریک انصاف کی پوری قیادت کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں تحریک انصاف کے، ان کو جنت میں لے جائے گا۔ جو کہ ہم نے عمران خان کو ایک ہزار میں لانے کے لیے 24 سال تک محنت کی اور اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔

اپنا تبصرہ لکھیں