…..اور سات بار جارج کے سرپر کوئی طاقت تاج دوبارہ رکھ دیتی

انتخاب در نایاب
دور غلامی کی بات ہے پنجاب کے درجنوں پیروں نے اکٹھ کیا اور وقت کے ایک بڑے ولی اللہ کے پاس پہنچے اور کہا حضور یہ کیا؟ اب ہم پر فرنگی راج کریں گے؟

اس ولی اللہ نے روحانی دنیا میں پرویش کیا اور شہنشاہ جارج کے سر سے تاج اتار کر پھینک دیا غرض سات بار تاج اتار کر پھینکا اور سات بار جارج کے سرپر کوئی طاقت تاج دوبارہ رکھ دیتی

ولی اللہ بہت پریشان ہوئے اور دہل گئے روحانی دنیا سے واپس مادی دنیا میں پرکٹ ہوئے اور پیروں سے کہا

میں نے سات مرتبہ جارج کے سر سے تاج اتار کر پھینکا اور ساتوں مرتبہ بارگاہ رسالت کے حکم سے جارج کے سر پر دوبارہ کسی نے تاج رکھ دیا اس لیے انگریز راج پر تنقید سے بچو یہ راج بارگاہ رسالت کے حکم سے انکو ملا ہے

یہ واقعہ ڈیپ اسٹیٹ صوفی ازم کو جاننے والے بہت سے لوگ جانتے ہیں اور دور غلامی میں یہ واقعہ اکثر پیروں کی طرف سے مریدین کو سنا کر انگریز راج کو لجٹمائز کیا جاتا تھا میں خود یہ واقعہ کئی بابوں کے منہ سے سن چکا ہوں اس سے ایک ملتا جُلتا واقعہ دیوبندی اکابرین نے بھی گھڑا کے انگریز کے خلاف کیسے لڑیں خضر علیہ السلام تو انگریز کے لشکر کی طرف سے لڑتے ہیں

لیکن کیا آپ کو پتا ہے یہ واقعہ کیوں گھڑا گیا؟
کیونکہ بیشتر گدّیاں انگریز سرکار کے پے رول پر تھیں اور لاکھوں ایکڑ جاگیریں انگریز ان گدیوں کو الاٹ کر چکا تھا اور انہیں اُس وقت لاکھوں روپوں میں وظیفے دیتا تھا اور یہ پیر انگریز کے لیے خشکیوں اور صحراؤں میں انگریز کے دشمنوں سے لڑتے تھے اور یہ جاگیریں وہ بنیادی وجہ تھیں جس وجہ سے پیروں نے یہ من گھڑت واقعہ گھڑا تاکہ مذہبی عقیدت کی پھکّی سے جاہل مریدوں کو خاموش کروا سکیں اور انگریز راج کو اللہ کا حکم ثابت کردیں تاکہ انگریز کے دشمنوں کو جب ہم ماریں تو جاہل مرید ہمیں ایجنٹ نا کہیں بلکہ انگریز کے دشمنوں کو اللہ کا دشمن سمجھیں

آپ نے اوریا مقبول جان کا حضورﷺ کی بارگاکی بارگاہ سے باجوہ صاحب کی اپاؤنٹمنٹ والا خواب تو سنا ہوگا؟

آپ نے جناح صاحب کو حضورﷺ کی بارگاہ سے حکم پر پاکستان بنانے کے لیے انگلینڈ سے واپس آنے کا واقعہ بھی سنا ہوگا

آپ نے نواب آف قلات کے حضورﷺ کی بارگاہ سے حکم پر قلات کو پاکستان میں شامل کرنے کا واقعہ بھی سنا ہوگا؟

آپ نے بشری مانیکا اور عمران خان کے نکاح کی بشارت کا واقعہ بھی سنا ہوگا؟

پھر آپ نے طارق جمیل کے منہ سے جنید جمشید کے حضورﷺ کی بارگاہ میں جانے اور حضورﷺ کی طرف سے طارق جمیل کے دوست کو یہ پیغام پہنچانے کا واقعہ بھی طارق جمیل سے سنا ہوگا کہ طارق جمیل سے کہنا تمہارا دوست ہمارے پاس پہنچ چکا ہے

پھر آپ نے داتا صاحبؒ کا علامہ اقبال کے گھر جانے اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کی طرف سے لسی فروش بن کر علامہ اقبال اور داتا علی ہجویریؒ کو لسی گھوٹ کر پیش کرنے کا واقعہ بھی پڑھا ہوگا؟

حیران ہوئے؟ اب آپ سوچیں گے یہ ماڈرن پریکٹس ہے ؟ نہیں نہیں آپ نے یہ پچھلی ایک صدی میں ہوئی بشارتوں کے واقعے تو سنے ہیں لیکن کیا آپ نے یہ واقعات سنے ہیں؟

محمود غزنوی سے جب سومنات فتح نہیں ہورہا تھا تو ایک بزرگ نے اپنا کرتا انہیں دیا کہ اس کو مصلیٰ بنا کر جو دعا کرو گے پوری ہوگی لہذا محمود نے گجرات میں جا کر کرتا بچھا کر سومنات فتح کرنے کی دعا کی اور وہ پوری ہوئی فتح کے بعد جب غزنوی نے بزرگ کو کُرتا واپس کیا تو بُزرگ نے پوچھا کیا دعا کی تھی؟ غزنوی نے کہا سومنات فتح کرنے کی, بُزرگ رو پڑے اور بولے تُو احمق صرف ایک مندر فتح کرنے کی دعا مانگ آیا خدا کی قسم اگر تُم اس کُرتے پر سجدہ کرکے خدا سے پورے ہند کے مسلمان ہونے کی دعا مانگتے تو وہ بھی پوری ہوجاتی 😂

شہاب الدین غوری کو پرتھوی راج چوہان نے کئی مرتبہ شکست دی تھی آخری شکست کے بعد حضرت معین الدین چشتیؒ شہابالدین کے خواب میں آئے اور کہا ہم نے اجمیر تمہیں دیا شہاب نے فتح کے بعد جب اجمیر میں خواجہ اجمیری کو دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہوں نے مجھے فتح کی بشارت دی تھی 😂

اورنگزیب نے اپنے سگے بھائی اور شاہجہاں کے جانشین دارشکوہ قادری کو دردناک موت دینے کے بعد دارشکوہ کے مرشد سرمدؒ کی گردن اڑائی تو سرمد کے کٹے دھڑ نے اپنی گردن اٹھائی اور بارگاہ رسالت میں جانے کا سوچا اتنے میں سرمد کے مرشد وہاں پہنچے اور کہا سرمد کہاں جا رہے ہو ؟ سرمد نے کہا اورنگزیب کی شکایت بارگاہ رسالت ص میں کرنے جا رہا ہوں مرشد نے کہا سرمد ناجانا کیونکہ اورنگزیب پہلے ہی وہاں پہنچ چکا ہے چناچہ سرمد کا دھڑ ایک طرف سر ایک طرف گرا اور وہ وصال فرما گئے

یہاں ان تمام واقعات کا ذکر کروں تو دفتر بھر جائے گا

لب لباب یہ کہ ہندوستانی/پنجابی مقامی مسلمانوں پر حکومت کرنے اور انکی زبانیں بند کرنے کا یہ آزمودہ نسخہ صدیوں سے استعمال ہورہا ہے اور آئیندہ صدیوں تک استعمال ہوتا رہے گا اور موقع پرست ان بشارتوں کا سہارا لے کر عوام کے منہ بند کرواتے رہیں گے,۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں