شاعرہ: شعاعِ نور
بھلا سکتی نہیں وہ دن
مری اک نظم دل دہلیز پر
جب گیلی آنکھوں سے
دیا دل کا جلا کر لوٹ آئی تھی
تو اس نے دل کے رستوں سے
مجھے پیغام بھیجا تھا
کسی کے دل سے جو نکلیں
کسی کے دل میں جا اتریں
وہ نظمیں اچھی لگتی ہیں
میں اکثر مسکرا کر اس کے خوشبو سے بھرے پیغام پڑھتی تھی
میں اک ادنی سی شاعر ہوں
جو اکثر رات کے پچھلے پہر
آنکھوں کو ملتی جاگ جاتی ہے
لرزتے ہاتھ کی دستک بھی کیسی تھی
جواباً اس کو کیا کہتی
مری نظمیں تو ایسے خواب بنتی ہیں جو لاحاصل ہی ٹھہرے ہیں
کہاں تعبیر ملتی ہے
مرے لفظوں کی دنیا تو خیالی ہکہاں تصویر ملتی ہے
مگر دل یہ بھی کہتا تھا
کبھی تو در کھلے گا دستکیں پیغام لائیں گی
ادھوری اور شکستہ نظم کا انجام لائیں گی
تعلق کا نجانے کون سا رستہ نکل آیا کہ جس میں لمحہ لمحہ ایک شدت سے سبھی جملے شناسائی کی خوشبو میں لپٹ کر ملنے آتے تھے
جو دیوانہ بناتے تھے
تعاقب میں صدا دیتے یہ سارے لفظ جن سے نظم بنتی تھی اک ایسے عکس کو تشکیل دے بیٹھے کہ جس کے دل کی دھڑکن کی صدا کانوں میں آتی ہے
جہاں اقرار کرتی نظم کاغذ پر اتر کر عشق کا اظہار کرتی ہے
جو امریتا سی دکھتی ہے
کسی ساحر سے سچا پیار کرتی ہے