کالم نگار شازیہ عندلیب
ناروے میں جب سے جبری شادیوں اور کزن میرجز پر پابندی کا قانون لاگو ہوا ہے یہاں موجود کمیونٹی نے مقامی طور پر موجود خاندانوں میں ہی شادیاں طے کرنا شروع کر دی ہیں۔ آجکل یہاں شادیوں کا سیزن شروع ہے۔پاکستانیوں کی شادیاں بھی روائتی جوش و خروش اور رسومات کے ساتھ خوب دھوم دھام سے منعقد کی جاتی ہیں۔ان تقریبات میں پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی عزیزو اقارب شرکت کے لیے آتے ہیں۔جبکہ یہاں موجود رشتہ دار اور سہیلیاں دولہا اور دولہن کے لیے سرپرائز ڈھولکی کی تقریبات منعقد کرتی ہیں ۔ان تقریبات میں دولہا اور دولہن کے سوا سب کو تقریب کا پتہ ہوتا ہے ۔ان تقریبات میں دولہا اور دولہن کی رشتہ دار خواتین ڈھولکی پر روائتی گیت گاتی ہیںاور سب لطف اندوز ہوتے ہیں۔مہمانوں کی تواضع روائتی کھانوں اور ڈشزسے کی جاتی ہے جن میں روسٹ پلائو،بریانی زردہ متنجن اور نان شامل ہیں۔
تقریبات میں نارویجن اور دوسرے ممالک کی خواتین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے جو کہ پاکستانی کلچر سے اور لزیز کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس طرح پاکستانیوں کو مقامی معاشرے میں اپنا کلچر بھی متعارف کرانے کا موقع ملتا ہے جو کہ باہمی معاشرتی تعلقات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس وقت یہاں کئی گھرانوں کو اپنے بچوں کے لیے رشتے ملے ہیں یہ ان پارٹیز کا اہتمام کرنے والے منتظمین کی مہربانی ہے جو کسی لالچ کے بغیر فی سبیل الالہ یہ کام کر رہے ہیں۔لیکن کچھ مسائل بھی ہیں جن پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ان مسائل کے حل کے لیے ہماری کمیونٹی کو خود متحد ہو کر کوئی قدم اٹھانا ہو گا ورنہ کسی اور نے انکا مسلہئ حل کیا تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ناروے میں گزشتہ دس سالوں کے دوران کزن میرجز اور جبری شادیوں کے نتیجہ میں کئی سنگین جرائم منظر عام پرآ ۤئے۔جبکہ کئی جرائم پس پردہ ہی رہے جو مناسب شواہد نہ ہونے کی وجہ سے منظر عام پر تو نہ آ سکے لیکن ان جرائم کی وجہ سے جہاں ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کا امیج مقامی معاشرے میں خراب ہوا وہیںکئی پاکستانی گھرانے بھی علیحدگی اور باہمی رقابتوں کی وجہ سے عدم توازن کا شکار ہوئے۔ ان گھرانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں وہ توازن میسر نہ آ سکا جو انہیں ایک کامیاب شہری بناتا اور وہ معاشرے میں نمایاں کار کردگی دکھاتے ۔ایسے ہی گھرانوں کے بیشتر بچے مختلف جرائم کی طرف مائل ہو گئے اور کچھ نفسیاتی امراض کا شکار ہوئے۔تاہم نارویجن حکومت اپنے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل پر بھی گہری نظر رکھتی ہے اور ہمیشہ اپنے شہریوں کی بلا تفریق رنگ و نسل کے ان کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ اس طرح یہ حکومت ناروے کے فلاحی حکومت ہونے کا پورا پورا ثبوت دیتی ہے۔ ان جرائم کی تفصیل میں جانے کے لیے بہت وقت درکار ہے اور یہ نہائیت تکلیف دہ عمل بھی ہے کہ ہم لوگ ایک مسلمان معاشرے کے رکن ہونے کی حٰثیت سے کس قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔اپنے ذاتی مفادات اور دولت کے حصول کی خاطر پاکستانی افراد کون کون سی حدیں پار نہیں کر جاتے۔ یہ ایک انتہائی شرمناک حقیقت ہے۔ایسی کئی کہانیاں بکھری ہیں جن میں پاکستان سے بیاہ کر آنے والے لڑکے اور لڑکیاں یہاں نہ صرف ایڈجسٹ نہیں کر پاتے بلکہ کئی پاکستانی جبری شادی کی وجہ سے گیر اخلاقی کاموں اور جرائم کا ارتکاب کر دیتے ہیں جسے کوئی بھی امن پسند معاشرہ قبول نہیں کرتا۔لہٰذا ان مسائل سے نبٹنے کے لیے نارویجن حکومت نے پاکستانی کمیونٹی کی کزن میرجز پر پابندی لگا دی اور چوبیس برس سے کم عمر کے لڑکے لڑکی کی شادی کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔اس سلسلے میں کئی پاکستانی حلقوں نے احتجاج بھی کیا جو کہ اس قدر مبہم اور کمزور تھا کہ اس احٹجاج کی باز گشت تو دور کی ات ہے آواز بھی کسی کو سنائی دی ۔البتہ کچھ لوگوں نے یہ عقلمندی کی کہ اس مسلہئ کو حل کرنے کے لیے مقامی طور پہ آباد خاندانوں میں رشتہ تلاش کرنے کے لیے رشتہ پارٹیوں کا اہتمام شروع کر دیا۔لیکن چونکہ یہ پارٹیاں بغیر کسی قسم کے تحقیقی کام کے منعقد کی جا رہی ہیں لوگوں کے مسائل اس طرح سے حل نہیں ہو رہے جیسے حل ہونے چاہیں تھے۔
ان میں سے چند مسائل یہ ہیں
اپنی ذات برادری کے رشتے کی تلاش
لڑکے لڑکی کی پسند کے بجائےاکثر مائیں اپنی پسند اوراپنی ذات گائوں اور اپنے گھر کے آس پاس ہی رشتہ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔اس کوشش میں کئی کئی برس بیت جاتے ہیں اور لڑکے لڑکیوں کی عمریں ذیادہ ہو جاتی ہیں۔
نئے دور کے تقاضوں سے نا واقفیت
رشتہ پارٹیز میں جانے والی اکثر خواتین بدلتے دور کے لڑکے لڑکیوں کی ضروریات کو نہیں جانتیں۔ بلکہ وہ اپنے حالات اور روایات کے مطابق ہی رشتہ تلاش کرتی ہیں بجائے اپنے بیٹے بیٹی کے مزاج اور ضرورت کے مطابق رشتہ تلاش کریں۔
ناروے میں چونکہ لڑکا لڑنی سب کماتے ہیں اس لیے یہاں جہز کی لعنت تو نہیں ہے مگر اکثر خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی بہت خوبصورت اور نیک با حیائ اور بھولی بھالی ہو۔خواتین رشتہ پارٹی میں ایک ایسی بہو کی تلاش میں نکلتی ہیں جو اتنی سادہ ہو کہ اسکی اپنی کوئی مرضی نہ ہو،فرمانبردار اتنی ہو کہ اپنی ساس کی ہر بات بلا چوں چراں مان لے۔ اس کے منہ میں زبان نہ ہو اور دل میں کوئی خواہش نہ ہو زبان پر کوئی مطالبہ نہ ہو۔حسن حوروں جیسا اور اخلاق نیک پر وین جیسا اور کمائی کے ساتھ ساتھ سگھڑ بھی بے حد ہو۔جب ایک خاتون اسلامی اسکالر سے ایک خاتون نے ایک ایسی بیشمار خوبیوں والی بہو کے مل جانے کا پوچھا کہ انہیں ایسی خوبیوں والی بہو کہاں سے ملے گی خاتون اسلامی اسکالر نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا
جی ہاں آپ کو ایسی بہو مل جائے گی مگر جنت الفردوس میں۔
اسی طرح لڑکیوں کی مائوں کو ایسے رشتے کی تلاش ہوتی ہے جو لڑکی کو علیحدہ گھر میں رکھے اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بالکل تعلق نہ رکھے نہ ہی انہیں منہ لگائے بلکہ وہ صرف لڑکی کے میکے کی ہی آئو بھگت کرے۔
ایسی مائوں کے لیے کسی نے کیا خوب مشورہ دیا تھا کہ ایسی مائوں کو چاہیے کہ وہ یا تو اسٹوڈنٹ لڑکا تلاش کریں جو نہ صرف اکیلا ہو گا بلکہ گھر میں ہانڈی چولہا بھی سنبھال لے گا بلکہ وہ سارے گھر کے کام بھی کر دے گا کیونکہ یہاں ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبائ گھریلو کاموںمیں ماہر ہوتے ہیں یا پھر کوئی لا وارث لڑکا ڈھونڈ لیں جس کا کوئی والی وارث نہ ہو۔لیکن ایسے رشتوں پر کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے اسکی کوئی گارنٹی نہیں۔گو کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے کئی لوگ بہت اچھے بھی ہوتے ہیں۔
انمسائل کو دیکھتے ہوئے انٹر کلچرل وومن نے بھی کئی سیمینار اور کورسز کروائے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے بچوں کے گھر بسانے میں آسانی ہو سکے۔یہاں اس سلسلے میں کئی رشتہ پارٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں
1
ہمسفر رشتہ پارٹی
منتظم سعیدہ باجی،غزالہ بیگ
2۔
ہائوگے رود رشتہ پارٹی
منتظم مسز احمد
3۔
رشتہ یونین آف مسز راجہ
4۔
یو ایم ایس رشتہ گروپ
منتظمین، آنسا، امبرین قریشی
5۔
پاک رشتے ناطےفیس بک گروپ
منتظم محمد ظہور
اس کے علاوہ مختلف مساجد میں بھی رشتہ پارٹیز کروائی جاتی ہیں جن میںاوسلو سینٹر کی مسجد جماعت اہلسنت ہولملیا کی مسجد قادریہ، موٹینسرود کی مسجد اور فیورست کی اسلامک کلچر سینٹر کی مساجد شامل ہیں۔ اگر آپ کو کسی بھی گروپ کے بارے میں مزید معلومات چاہیے آپ کمینٹ باکس میں اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں۔