محمد انتصارالحق
بلاگر آئی بی سی اُردو
پہلے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت پر لکیر پھیر دی گئی اور پھر اٹھارہ انیس مہینے بعد توشہ خانہ کیس میں نہ صرف قید اور نقد جرمانہ بلکہ سیاست میں حصہ لینے پر بھی پانچ سال کی پابندی بوجہ نا اہلی لگا دی گئی۔عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کے لیئے انہونی ہی تھی لیکن مشاہدین اور تجزیہ کاروں کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو،دو بار بینظیر بھٹو اورتین بار نواز شریف اس کہانی کا مرکزی کردار ادا کرچکے ہیں۔
پانامہ، اقامہ اور توشہ خانہ بھی ہم قافیہ ہی ہیں۔دکھ کی بات ہے کہ پاکستان بننے سے لیکر ابھی تک 29 وزیراعظم آئے اور سب کے سب اپنی 5 سالہ مدت مکمل کیئے بغیر رخصت ہوئے۔ان میں سے 18وزرائے اعظم کرپشن کے الزامات، براہ راست فوجی بغاوت اور حکمران گروپوں کے مابین اختلافات کی وجہ سے معزول ہوئے۔ ایک وزیر اعظم کو قتل کیا گیا۔ باقی ماندہ بے چارے انتخابات کی نگرانی یا برطرف وزیر اعظم کی خالی جگہ پُر کرنے مختصر وقت کے لئے مسند وزارت عظمی پر کسی ٹرانزٹ پیسنجر کی طرح بیٹھے۔ البتہ سال 1993کسی ون ڈے میچ کے آخری اوور کی طرح رہا، اس میں پانچ بار وزیر اعظم بدلا گیا۔
خاکسارجولائی 2016 میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں بطور میڈیا مینیجر نوکری کررہا تھا۔جب ایک نابغہ روزگار اور جید صحافی جو کہ میرے استاد بھی ہیں نے اگلا وزیر اعظم عمران خان ہوگا کی پیشین گوئی کی۔ واضح رہے کہ اس نوکری میں میری آمد مطلقا تلاش روزی روٹی کی رہین منت تھی نہ کہ کسی قسم کی سیاسی وابستگی۔
اگرچہ اس وقت تحریک انصاف پختونخواہ میں حکومت کرنے کے تجربے سے گزررہی تھی لیکن اس کے باوجود یہ پیشین گوئی سنتے ہی میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ تحریک انصاف وفاق میں حکومت کے لیئے کسی طور بھی تیار نہیں ہے۔اس پانچ سالہ مختصر مدت ملازمت میں مجھے خان صاحب اور تحریک انصاف کو کافی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔میں نے دیکھا کہ خان صاحب بلاشبہ بہت مقبول اور سحر انگیز شخصیت ہیں۔
خاص طور پر ان کے جلسوں میں لوگ ان کے لیئے دیوانگی کا مظاہرہ کرتے دیکھے، بالخصوص خواتین عمر کی قید سے بالاتر ان پر صدقے واری ہوتی دیکھیں۔بلاشبہ عمران خان کے پرستار وں کی تعداد بہت وسیع تھی جو اُن کے سحر میں مبتلااور ان کی ایک آواز ایک پکار پر دیوانہ وار پہنچتی تھی۔ یہ پرستارایمان کی حد تک عمران خان کے منہ سے نکلی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے تھے۔ جو ان کے ہر یوٹرن کو جانے سمجھے بغیر خم ٹھونک کر دفاع کرتے تھے جیسا کہ سائفر اور امپورٹڈ حکومت کے نعروں میں ہوا۔لیکن خان صاحب کے ساتھ اتنے پرستار ہونے کے باوجودقریبی ساتھی غیر مخلص، ضرورت سے زیادہ موقع پرست اور کچھ ضرورت سے زیادہ احمق تھے۔
یہ بات تو واضح ہو ہی چکی تھی کہ اب حکومت ملی کہ ملی۔ اکثریت حکومت ملنے کے امکان پر دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کی نیت اور منصوبہ بندی رکھتی تھی۔ ایسے لوگ عمران خان کی کچھ کمزوریوں سے خوب آگاہ تھے۔ مثلا َ َعمران خان اپنی مخالفت برداشت نہیں کرپاتے تھے۔ اور جو ان کی مخالفت کرتا تھا اسے خوب برا بھلا کہتے تھے اور مندرجہ بالا مذکورہ مصاحبین کمال مستعدی سے جلتی پر تیل ڈالتے تھے اور باجماعت خان صاحب کی اقتدا میں برا بھلا کہتے تھے۔ میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے ریسرچر بھی صرف تعریف پر مبنی کالموں اور تحریروں کو مثبت کی لسٹ میں رکھتے تھے اور مشورہ دینے والے لکھاری بھی پارٹی مخالف لسٹ میں شامل کیئے جاتے تھے۔ تحریک انصاف میں اختلاف جرم تھا اور بنی گالہ میں جمہوریت ناپید۔ ماضی میں سیاسی مخالفین کے لیئے دشنام طرازی ہوتی رہی ہے لیکن خان صاحب کے ہاں اس کو شدیدہتھیار کی شکل دے دی گئی تھی۔ اور رگڑا لگاتے وقت چھوٹے بڑے اپنے پرائے اور معزز غیر معزز کی تمیز اٹھا لی گئی تھی۔
خان صاحب یا تحریک انصاف کا ایک المیہ یہ بھی تھا کہ پارٹی میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جلسہ ایک ہجوم کی شکل اختیار کرلیتا تھا۔ خان صاحب سٹیج پر لوگوں کو چپ ہی کراتے رہ جاتے تھے۔اس کے علاوہ پارٹی کے اندر پارٹیاں اور گروپ بنے ہوئے تھے۔عمران خان اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے اور تنگ تھے کہ میں صبح جاگتا ہوں تو موبائل پر شکایتوں کا انبار کھلا ہوتا ہے کہ فلاں نے یہ کہہ دیا فلاں نے یہ کردیا۔ عمراں خان کبھی عون چوہدری اور جہانگیر ترین کے جھگڑے سلجھا رہے ہوتے تھے تو کبھی سیف اللہ نیازی اورعامر کیانی کے۔
آخری دنوں میں تو صورتحال اس حد تک آوٹ آف کنٹرول اور مضحکہ خیز ہو چکی تھی کہ جو نوٹس یا احکامات سیف اللہ نیازی جاری کرتا تھا شام کو عامر کیانی انہیں اپنے دستخطوں سے کینسل کردیتا تھا اور جو عامر کیانی کرتا تھا اگلے پہر سیف اللہ نیازی انہیں اپنے سائین کر کے منسوخ قرار دیتا تھا اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جو ملک کے وزیر اعظم بھی تھے دونوں کو کبھی ڈانٹ ڈپٹ اور کبھی منت سماجت کرتے رہتے تھے۔
الیکشن کے لئے ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر حکومت میں آکر کابینہ کی تشکیل یہ دونوں مراحل کسی بھی پارٹی لیڈر اور وزیر اعظم کے لیئے مشکل ترین ہوتے ہیں۔ اور عمران خان دونوں میں کوئی عقلمندی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔
دونوں مراحل میں بہت سے مخلص اور دیرینہ رفیق اور کارکن مایوس اور ناراض ہوکے راستے جدا کر گئے۔ کمادی گیدڑ عمران خان کو گھیر چکے تھے۔ پارٹی اندرونی لڑائی جھگڑے کا شکار ہوتی گئی۔ عمران خان دانستہ نظر انداز کرتے رہے یا سچ مچ کوئی ان کے کہنے میں نہیں تھا۔ بہت اہم فیصلوں میں وہ مراد سعید، شہریار آفریدی یا ان جیسے دوسرے عاقبت نا اندیشوں کی رائے پر زیادہ دھیان دیتے تھے جبکہ شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری یا باقی زیرک سیاسی سوچ کے حامل لوگوں کی رائے انہیں اکثر پسند نہیں آتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ غالبا یہ تھی عمران خان کوئی روایتی سیاستدان نہیں تھے اور نہ وہ سیاست سیکھ سکے۔ ان کے مزاج میں صلاح مشورے کی جگہ مطلق العنانی زیادہ تھی۔
ایک اور چیز جس نے ان کی سیاست اور جماعت کو شدید دھچکہ پہنچایا وہ الیکٹبلز کو جماعت میں شامل کرنا تھا۔ جس کی انہیں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن انہیں اس قدر ڈرایا گیا کہ وہ اس پر آمادہ ہوگئے۔ 2018 کے الیکشن کے وقت وہ اس لیول پر یقینا تھے کہ انہی کے ساتھیوں کے بقول اگر وہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتے تو وہ جیت جاتا۔لیکں ڈر۔ ہارنے کا ڈر۔ عمر کی حد ختم ہونے کا ڈر۔ وزیر اعظم بننے کے بالکل قریب قریب ان کی حالت یہ تھی کہ اگر انہیں وزارت عظمی کے عوض ماونٹ ایورسٹ سے چھلانگ لگانے کو بھی کہا جاتا تو دیر نہ کرتے۔
میری رائے میں اگر وہ اپنی اس بات پر قائم رہتے کہ نئے اور ایماندار لوگ ہی لیکر ااون غا، بھلے ہار جاتے لیکن اس پر قائم رہتے تو ان کی سیاسی ساکھ اور عوام میں ان کی مقبولیت اور عزت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا۔ پرانے نظریاتی کارکنوں کو یکسر پس پشٹ ڈال دیا گیا اور پرانے کرپٹ الیکٹبلز جن کو عمران خان خود بارہا چور اور لوٹا کہہ چکے تھے پارٹی میں ہاتھوں ہاتھ لئے گئے اور بڑے بڑے عہدوں سے بھی نواز دیا گیا۔ عمران خان کو اس بھی ڈرایا گیا کہ اگر فواد چوہدری اور شیخ رشید کو پارٹی میں نہ لیا گیا تو بطور اپوزیشن یہ سنبھالے نہیں جائیں گے اور دن رات مٹی پلید کریں گے۔
پانچ سالہ صوبائی حکومت کا دور اور پھر وفاقی حکومت کا دور، بہت سے اچھے اور قابل قدر کام ہوئے تھے لیکن افسوس میڈیا ڈیپارٹمنٹ انہیں عوام کے سامنے لانے میں بری طرح ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کے ماتحت تھا۔ اور اس عہدے پر شفقت محمود اور احمد جواد جیسے احمق لوگ رہے جنہیں میڈیا اور میڈیا سٹریٹجی کی الف بے نہیں معلوم تھی۔ شیریں مزاری اور فواد چوہدری بھی اس عہدے پر فائز رہے لیکن ان کی ذاتی سیاسی مصروفیات نے انہیں فرصت ہی نہ دی۔
سوشل میڈیا کے پاس مخالفین کے خلاف کمپین کے سوا کوئی ٹاسک نہ تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی عمران خان کی کوریج پر ہی زور تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک ملک میں کسی کو پتا ہی نہیں تحریک انصاف نے پنجاب اور کے پی میں شعبہ صحت میں کتنا کام ہوا، کورونا وبا سے کتنی کامیابی سے نمٹا گیا۔ اس کے علاوہ ا ورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں 40 سے 50 فی صد تک اضافہ، برآمدات میں غیر معمولی بہتری، ٹیکس ریوینیو میں اضافہ، نئے ڈیمز کی تعمیر کا آغاز اور احساس پروگرام کا اجرابھی قابل ستائش اور ذکر ہیں۔
وہی الیکٹبلز جنہیں چاؤ سے لایا گیا تھا اج دوسری پارٹی کی گود میں ہمک رہے ہیں۔ عمران خان سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ پارٹی میں کچھ دم نہیں رہا۔ ایسے میں ایک امید کی جاسکتی ہے کہ اس تنہائی میں خان صاحب سوچ پائیں کہ انہوں نے اس سیاسی جدوجہد میں کیا غلطیاں کیں۔ اور جب واپس ائیں تو انہیں نہ دہرانے کے فیصلے کے ساتھ ائیں۔ اس ملک کی عوام نے سوا مایوسیوں اور نا امیدیوں کے سیاستدانوں سے کبھی کچھ حاصل نہیں کیا۔ کبھی تو یہ سلسہ ختم ہو۔