ایک خواب، جو ابھی زندہ ہے

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری

“اے میرے وطن کے باسیو! یہ خواب کبھی ہمارے دلوں کی امید اور ہماری راہوں کی روشنی ہوا کرتے تھے۔ ہماری فوج، ہمارے محافظ، ہمارے شجر سایہ دار تھے۔ وہ وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے لوگ تھے جن پر ہمیں ناز تھا۔ آج بھی ہمیں ان پر ویسا ہی اعتماد ہے جیسے ہمارے بزرگوں کو تھا، اور جس طرح عمران خان نے کہا کہ ‘فوج ہماری ہے اور ہم اس کے’۔ یہ الفاظ ہمارے دلوں کی آواز ہیں، وفاداری اور جذبے کا مظہر ہیں۔”
بچپن میں یہی خواب دیکھا کہ ایک دن میں بھی وردی پہنوں گا، جیپ ہوگی، اور اپنی سرزمین کی حفاظت کروں گا۔ جب 1971 کی جنگ کا بگل بجا اور مغربی پاکستان پر حملہ ہوا، تو میرے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا۔ میں نے ایک رضاکار کے طور پر اس جنگ میں حصہ لیا۔ اپنے وطن کی حفاظت کے لیے، ایک جوان دل کے ساتھ، میں نے فوجی وردی خریدی اور خدمت میں جت گیا۔ مگر جب پاکستان ٹوٹا تو یہ لمحہ میرے دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ میں بہت رویا، میرے دل کی دنیا جیسے اجڑ گئی ہو۔ یہ صدمہ میرے لیے ناقابلِ بیان تھا، ایک ایسی یاد جو دل پر نقش ہو گئی۔
آج جب عمران خان اور مجیب الرحمان کا موازنہ کیا جاتا ہے، دل میں شدید دکھ ہوتا ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجیب الرحمان نے اپنے ملک سے وفاداری کا دم توڑ دیا اور دشمن ملک کو آواز دی، مگر عمران خان نے ہمیشہ پاکستان اور اس کی فوج کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جس نے ہمیں ہمیشہ مضبوط رکھا ہے اور یہی ہماری امید کا مرکز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عمران خان نے جب بھی بات کی، پاکستان اور اس کی خودمختاری کی بات کی۔ اُس نے کبھی کسی بیرونی قوت کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی دعوت نہیں دی۔ یہ بات ہمارے دلوں میں انمٹ طور پر نقش ہے کہ ہمارا لیڈر ایک وفادار پاکستانی ہے، جو ہر حال میں اپنے ملک کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ کس قدر افسوسناک ہے کہ آج ایک ایسے شخص کے خلاف ناجائز کیسز بنائے جا رہے ہیں جس نے ہمیشہ کہا کہ “فوج میری ہے اور میں فوج کا ہوں”۔ اس کے باوجود، عدالتوں اور حکومت کا رویہ ایسا ہے جیسے وہ عمران خان کو ایک سبق سکھانے پر تُلے ہوں، انہیں اسی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے چنی گئی تھی۔ کیا انہیں یاد نہیں کہ بھٹو کے کیس پر بعد میں معافی مانگنی پڑی؟ کیا ہم ایک اور ایسا بڑا ظلم دہرانے جا رہے ہیں جس کا مداوا پھر کبھی ممکن نہ ہو سکے؟ عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے عدالتی اور حکومتی نظام کی کمزوری اور بے رحمی کا ثبوت ہے، اور اس میں شامل لوگ ایک تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں جو شاید بعد میں ہمارے ضمیر پر بوجھ بن جائے۔
ہمارا ایمان ہے کہ جب تک ہم اپنے اصولوں پر قائم رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہرا نہیں سکتی۔ قاضی فائز عیسیٰ کی بیوی کی مثال آج ہمارے سامنے ہے، جو انصاف کی علمبردار ہیں اور جن کی محنتیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہم اپنی قوم کے معاف کرنے کے منتظر ہیں، مگر یہ بھی یقین ہے کہ ہر غلط عمل کی سزا ہے، اس دنیا میں بھی اور اس دنیا کے بعد بھی۔
آج قاضی فائز عیسیٰ کی بیگم لندن سے درخواست کر رہی ہیں کہ خدارا ہماری بےعزتی نہ کریں، ہمیں معاف کر دیں۔ یہ جو عارضی سی دنیا ہے، اس میں جو کچھ آپ نے کیا ہے، اس کا بدلہ آپ کو آخرت میں بھی دینا پڑے گا۔ مکافاتِ عمل انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ لوگ جو ملک سے دور ہیں اور اپنے ماں باپ کی قبروں پر دعا کرنے سے بھی محروم ہیں، چاہے دنیا کی عیش و عشرت میں ہوں، عزت سے محروم رہیں گے۔
“إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء”
(النساء: 48)
“بے شک، اللہ کسی بھی ظلم اور شرک کو معاف نہیں کرتا، مگر اس کے علاوہ جسے چاہے، معاف کر دیتا ہے۔” یہ یاد دہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم اور خیانت کا انجام ناگزیر ہے اور اللہ کے قانون سے فرار ممکن نہیں۔
آج کا پاکستان ایک نئے عزم کی علامت بن چکا ہے۔ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کی وہ بات یاد ہے کہ “فوج کا کام سیاست میں حصہ لینا نہیں، بلکہ ملک کی حفاظت کرنا ہے۔” ہمیں اپنی افواج پر اسی اعتماد کے ساتھ بھروسہ ہے، جس طرح ایک خاندان کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم اپنی فوج کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں اور اپنی قوم کو اپنی امید۔
یہ قوم آج بھی فلسطین کے مظلوموں کی امید ہے، کشمیریوں کے لیے طاقت کا نشان ہے، اور ہر اس مظلوم کے لیے ایک امنگ ہے جو اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہی وہ عزم ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں اور ہم نے اس کو ورثے کے طور پر اپنایا۔ ہم اپنی افواج کے ساتھ ہیں، اپنے ملک کے محافظوں کے ساتھ ہیں، اور ہر اُس شخص کے ساتھ ہیں جو اس وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔
ہمیں ان خوابوں کو حقیقت بنانا ہے جو ہمارے شہیدوں نے دیکھے تھے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو اس قوم کا مان دینا ہے، ان میں اعتماد پیدا کرنا ہے، اور ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھنا ہے۔ آج جب ہم اپنے وطن کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ہماری فوج اور عوام مل کر اس ملک کو خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ یہی امید اور یہی عزم ہمیں آگے لے کر جائے گا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں