تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
میٹنگ روم سے نکلنے کے بعد ہم ڈائنگ روم میں آ گئے۔ ماحول پہلے ہی خوشگوار تھا، لیکن ایس اے کی میزبانی نے اسے مزید خاص بنا دیا۔ انہوں نے خاص طور پر میرے لیے براؤن شوگر والی چائے بنائی، جس کی تازگی نے میری ساری تھکن اتار دی ۔ ساتھ میں وہ بسکٹ، نمکو، اور چپس بھی لے آئیں، اور پھر کیو کے خاص پین کیک، جن میں آٹا، بیسن، سبز پیاز، پالک، نمک، مرچ، اور دہی شامل تھا۔ وہ پین کیک اتنے لذیذ تھے کہ ایک بار کھانے کے بعد ہاتھ روکنا مشکل ہو گیا۔
چائے کی چسکیوں کے دوران، میں اور ایس اے نے اپنے آنے والے سیمینارز اور پروگرامز کے لائحۂ عمل پر بات شروع کی۔ جیسے جیسے منصوبہ بنتا گیا، ایس اے کے چہرے کی خوشی بڑھتی جا رہی تھی۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ اب میں ہر ہفتے ایک دن دفتر آنے کے لیے تیار ہوں، تو ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک واضح تھی۔ وہ بولیں، “اللہ نے میری آج تہجد کے وقت کی دعا قبول کر لی!” ان کے اس جملے نے نہ صرف میرا دل چھو لیا بلکہ اس لمحے کو اور بھی یادگار بنا دیا۔
ہم اپنی گفتگو میں مصروف تھے کہ اتنے میں آر اے بھی آ گئیں۔ انہوں نے آتے ہی مجھ سے گلے ملتے ہوئے کہا، “میں نے گروپ میں تمہارا میسیج پڑھا اور بس تم سے ملنے کے لیے آ گئی ہوں!” ان کا خلوص دل کو چھونے والا تھا۔ جب میں اور ایس اے نے اپنے پلان کے بارے میں بتایا، تو آر اے فوراً بولیں، “اگر شہلا ان پراجیکٹس میں شامل ہیں، تو میں بھی ساتھ آنے کے لیے تیار ہوں!”
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ ایس اے کی ایک نہایت خوبصورت کتاب پہلے ہی شائع ہو چکی ہے، جبکہ آر اے آٹھ دس کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ان کی کتابیں عورت اور اس کے مختلف کرداروں کے مسائل پر گہرائی سے روشنی ڈالتی ہیں۔ آر اے کی باتوں میں ایک خاص کشش تھی۔ جب انہوں نے گفتگو شروع کی، تو ان کی مثبت توانائی نے ہم سب کو متاثر کیا۔ ان کی باتوں سے نہ صرف حوصلہ ملا بلکہ یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہم سب ایک عظیم مقصد کے لیے اکٹھے ہیں۔
یہ ملاقات کسی عام دن کا حصہ نہیں تھی؛ یہ ان لمحوں میں سے ایک تھا جب لوگ ایک دوسرے کی توانائی اور جذبے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسے ہی گفتگو آگے بڑھی، مجھے یقین ہو گیا کہ یہ دن ہماری جدوجہد کے نئے باب کی بنیاد بنے گا۔
جاری ہے ۔۔۔