تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
اس وقت آر جی کی باڈی لینگویج، ان کی چمکتی آنکھیں، اور ان کی مثبت توانائی پورے کمرے پر حاوی تھی۔ جب وہ “ٹُٹ گیاں چوڑیاں” جیسی نظمیں گنگنا رہی تھیں، تو ان کی آواز میں ایک ایسا جذبہ تھا جو دل کو چھو لیتا تھا۔ ان کی گفتگو، ان کے تجربات، اور ان کی شاعری نے مجھے اپنے تمام ٹویٹر اسپیسز کے ویمن ایمپاورمنٹ کےمباحثے بھلا دیے۔
آر جی کی باتیں صرف الفاظ نہیں تھیں، وہ اپنے تجربات کا نچوڑ تھیں۔ ان کی جدوجہد، عورتوں کی خود مختاری کے لیے ان کا عزم، اور ان کی زندگی کے مختلف پہلو مجھے حیران کیے جا رہے تھے۔ ان کی باتوں کے دوران، میں نے ایک لمحے کے لیے ان کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ اپنی باتوں سے صرف بول نہیں رہیں، بلکہ اپنے اندر ایک تحریک چلا رہی ہیں۔
اتنے میں مسٹر ایس بھی ہماری محفل میں شامل ہو گئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں IB کے طلبہ کو پڑھاتی ہوں، تو وہ بہت خوش ہوئے اور فوراً مبارکباد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ IB کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ان کی پہلی بیسٹ فرینڈ سنگاپور چلی گئی تھی اسی نصاب کے لیے۔ لیکن بات کرتے کرتے ان کے چہرے پر ایک اداسی چھا گئی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، “پھر تو IB آپ کا رقیب روسیاہ ہے!”
یہ بات سن کر مسٹر ایس مسکرا دیے، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک چھپی حسرت اور ماضی کی یادیں واضح تھیں۔ مجھے ایسا لگا کہ علم کے سفر میں وہ کوئی ایسا امتحان دے چکے ہیں جو ان کے دل کو کہیں نہ کہیں چھو گیا تھا۔
یہ محفل صرف ایک ملاقات نہیں تھی، بلکہ یہ ایک تحریک تھی۔ ایس اے کی دعائیں، قاف کے پین کیک، آر جی کی توانائی، اور مسٹر ایس کی کہانی نے مجھے یہ سکھایا کہ ایک مقصد کے لیے کام کرنے والے لوگ زندگی کو کتنی خوبصورتی سے جیتے ہیں۔ وہ لمحہ میرے لیے ایک یادگار دن تھا، جو نہ صرف دل کو سکون دے گیا، بلکہ میرے اندر ایک نئی روشنی بھر گیا۔
جاری ہے