یہ نثری نظم اوسلو، ناروے کی خواتین کی بین الثقافتی تنظیم اور اردو فلک کی جانب سے عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے24 نومبر 2024 کو نیشنل تھیٹر اوسلو میں ہونے والے احتجاج میں سٹیج پر پڑھی گئی
ظلم کی یہ کالی، سیاہ رات
جو میری نسلوں کے خواب کھا گئی
ہر پل اس کا
ارمانوں کے خون سے تر ہے
یہ گلیاں، یہ کوچے، یہ ایوانِ ظلم
آسیب زدہ، اداس آنکھیں، خاموش لب
کہانی سننے کا حوصلہ کس میں ہے؟
یہ زمین، جہاں سچ بولنا
اک سنگین جرم ٹھہرا
جہاں مظلوم کی صدا
عدالت کے در و دیوار سے ٹکرا کر دم توڑتی ہے
دلوں کے بادشاہ پر
چوری، غداری، بے ایمانی کے مقدمے
کردار کشی، قیدِ ناحق
اور عدل کے تقاضے ہوا میں اڑ گئے
انسانیت ناپید ہے،
جھوٹے مقدمے، بے گناہ عورت کی توہین
دھرتی کی بیٹیاں کس جرم میں پابندِ سلاسل ہیں؟
یہ دھاندلی کا کھیل، آئین کا مذاق،
شبِ ظلمت، جو ماؤں کی آنکھوں سے
خواب چھین لے
ووٹ، جو قوم کی امانت تھا
اس کی حرمت پامال ہوئی
ضمیر کے سوداگروں کا پرانا کھیل
عدل کے ترازو کا جھکاؤ، اک سوال
مگر کیا سچائی اتنی کمزور ہے؟
کیا خواب اتنے سستے ہیں؟
یہ دھرتی، جس کے ذرے ذرے میں
ہمارے پرکھوں کے خواب بسیرا کرتے ہیں
ہار نہ یہ مانے گی، نہ ہمیں ہارنے دے گی
تمہارے فیصلے، تمہارے الزامات،
تاریخ کے اوراق پر تمہارے مکروہ چہرے
عیاں کریں گے
یہ قید و بند، یہ تختِ ستم،
مگر یہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں
اندھیری رات میں جلتی مشعلیں ہیں
یہ گواہ ہیں اس دھرتی کی حیات کی
یہ صنفِ نازک نہیں، صنفِ آہن ہیں
خان کا جرم یہ ہے کہ
وہ دھرتی کے زخم دیکھتا ہے،
عام آدمی کے دل میں
امید کا چراغ روشن کرتا ہے
اس کی آواز، ہوا کے جھونکوں کی طرح،
عوام کی سانسوں میں، لہو میں دوڑتی ہے
ہر دل میں گونجتی ہے،
یہ انقلاب کی دھڑکن ہے
یہ امید کی سرگم ہے
ظالمو!
تمہارے تخت کے نیچے آگ سلگ رہی ہے
اقتدار کی باگیں مکر و فریب کے ہاتھوں میں ہیں
عنقریب عوام اٹھیں گے،
اور تاریخ تمہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دے گی
چوری شدہ خوابوں کا حساب ہوگا
یہ دھرتی اپنا حق لے گی،
کیونکہ دھرتی کے خواب نہ بکتے ہیں، نہ مرتے ہیں
یہ دھرتی بولے گی،
عوام کا انقلاب ہوگا
چوری شدہ ووٹوں کا،
عدل کے ایوانوں کا،
ظلم کے پروانوں کا،
دھاندلی کے بابوں کا،
ہمارے سارےخوابوں کا
سب کا حساب ہوگا، انقلاب ہوگا!