دوستی کی روشنی !

کہانی: زینب بابر بٹ

ڈاکٹر زویا ایک کامیاب ذہنی صحت کی ماہر تھیں، جن کی زندگی دوسروں کے دلوں کے زخموں پر مرہم رکھنے میں گزرتی تھی۔ لیکن زندگی کی گہری حقیقت یہ ہے کہ معالج بھی انسان ہوتا ہے اور کبھی کبھار وہ خود بھی اندھیرے میں ڈوبنے لگتا ہے۔

یہ سردیوں کی ایک شام تھی۔ دن بھر کے کاموں کے بعد جب وہ گھر آئیں تو محسوس کیا کہ دل بوجھل ہے اور خیالات کے دھندلکے بڑھ رہے ہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ کیفیت کوئی معمولی نہیں۔ یہ شاید سیزنل ایفیکٹو ڈپریشن (SAD) کا آغاز تھا، جو سرد موسموں میں انہیں گھیر لیتا تھا۔

دل کے بوجھ سے تھک ہار کر، انہوں نے اپنا فون اٹھایا اور اپنے دل کی بات کہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ اس وقت صرف ایک ہی شخص تھا جس سے وہ کھل کر بات کر سکتی تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر شیریں کو پیغام بھیجا:
”مجھے بات کرنی ہے، براہِ کرم بتائیں کیا یہ وقت مناسب ہے؟”

پیغام بھیجتے ہی فوراً جواب آیا: ”ہاں، زویا، آپ بلا جھجک بات کریں۔”

یہ جواب گویا روشنی کی ایک کرن تھا۔ زویا نے فوراً فون ملایا اور بات شروع کی۔ ڈاکٹر شیریں نے نہایت سکون اور صبر کے ساتھ ان کی ہر بات سنی۔ زویا نے اپنی کیفیت بیان کی، کہ کیسے وہ اپنی چکرا میڈیٹیشن اور اعلیٰ فریکوئنسی کی مشقوں کے دوران عجیب و غریب احساسات اور خواب دیکھ رہی تھیں۔

ڈاکٹر شیریں نے نرمی سے ان کے خیالات کو سمت دی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ وقت وہی ہے جب SAD کی علامات بڑھتی ہیں، اور ان کی پائنل گلینڈ شاید میڈیٹیشن کی وجہ سے متحرک ہو رہی ہے۔ زویا نے مزید کھل کر اپنے وہ خواب اور روحانی تجربات بیان کیے جو انہیں مسلسل الجھا رہے تھے۔

شیریں نے نہایت محبت سے کہا، ”آپ جو اللہ کے ایک خاص نام کا ذکر کر رہی ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے لاشعور میں چھپے خیالات اور منظرنامے ظاہر کر رہا ہو۔” زویا کو یوں لگا جیسے کسی نے ان کے ذہن کے بند دروازے پر دستک دی ہو۔

یہ گفتگو خاص تھی۔ زویا نے دل ہی دل میں سوچا کہ ان موضوعات پر جنوبی ایشیا میں کھل کر بات کرنا کتنا مشکل ہے۔ روحانیت، کوانٹم سائنس، اور شفا جیسے موضوعات اکثر قابلِ قبول نہیں ہوتے۔ لیکن شیریں کے ساتھ گفتگو ہمیشہ ایک محفوظ اور بھروسے کا ذریعہ رہی ہے۔

شیریں نے اپنے ناشتے کا وقت گزار کر 40 منٹ تک زویا کی باتوں کو صبرو تحمل، توجہ اور پیار سے سنا۔ مختلف ٹائم زونز کے باوجود، وہ مکمل توجہ کے ساتھ موجود رہیں۔ انہوں نے زویا کو ایک بار پھر کہا:
”اپنے خیالات کو لکھنا شروع کریں اور انہیں محسوس کریں۔”

زویا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہا، ”یہ تو وہی بات ہے جو میں اپنے مریضوں کو جرنلنگ کے نام پر کرنے کا مشورہ دیتی ہوں۔” لیکن انہوں نے مانا کہ یہ طریقہ واقعی کارآمد تھا۔

یہ لمحہ زویا کے لیے ایک سبق تھا۔ انہوں نے دل میں سوچا کہ اگر انسان اپنی پریشانیوں کو وقت پر کسی کے ساتھ بانٹ لے، تو بڑے مسائل کا حل ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کو صبر اور محبت کے ساتھ سنیں، تو شاید ہم ان کے لیے بھی روشنی بن سکیں۔

یہ ایک چھوٹا سا شکریہ کا پیغام تھا، ایک دوست کے لیے جو واقعی دوست تھی۔
ڈاکٹر شیریں، آپ کا بے حد شکریہ۔
محبت اور روشنی،
زویا۔

اپنا تبصرہ لکھیں