کلام: ڈاکٹر شہلا گوندل
میری ذات،ایک خاموش جھیل
جس میں اگر کوئی پتھر پھینکے
تو دیر تک اور دور تک
لہروں کے دائرے بنتے ہیں
جو تاحدِ نظر پھیل جاتے ہیں
ذرّے اور موج
کے سنگم پر کھڑی روشنی کی طرح
کہیں ایمان کے نورانی مدار میں محوِ رقص
کہیں بشریت کے کچے دھاگوں سے بندھی
خیر و شر کے رنگوں میں رنگی،
نور کی تپش اور تاریکی کی ٹھنڈک سے جڑی
عورت کے مان کا مضبوط قلعہ،
اور علم کی پیاس کا صحرا
میرے ارد گرد زندگی کے ہزار عکس،
چرند، پرند، پتھر، اور شجر
ہر ایک کے لیے میرے دل میں
ایک الگ گوشہ،
ایک الگ خانہ
ہر حجر اور بشر کا دائرہ جدا،
محبت کی گہرائیوں سے لے کر
نفرت کے کچلے جذبات تک،
شدت کے طوفان سے نرمی کی بارش تک
ہر احساس، ہر جذبہ،
ایک الگ مدار میں،
مگر سب میری ذات کے گرد
ہم آہنگ، بے آواز
جیسے سورج کی کرنوں میں
ہر فریکوینسی پوشیدہ ہے،
گاما ریز سے لے کر
ریڈیائی لہروں تک،
سب ایک دوسرے سے جدا،
مگر سب ایک روشنی میں
روشنی کی رفتار،
جو اس مادی دنیا کا
سب سے بڑا سچ ٹھہری،
میرے دائروں میں،
ہر ایک سچ، ہر ایک راز،
اپنی جگہ پر موجود،
سب سے الگ، سب سے جدا،
مگر سب سے ہم آہنگ
میری ذات،
دائروں کی یہ انجمن،
ایک خاموش روشنی،
جو ہر احساس کو چھوتی ہے،
اور ہر حقیقت کو تھامے رکھتی ہے
ہر سوچ رکھنے والے کی ذات میں یہی ھلچل ھے۔