کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل
میری اماں بڑی ڈاہڈی بھی تھیں
اور بےحد محبت کرنے والی بھی۔
ان کی سختی میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی، اور ان کی محبت میں ایک عجیب سی مضبوطی۔
انہوں نے ہمیشہ مجھے زندگی کے ان راستوں پر چلایا، جو مشکل تو تھے، لیکن درست اور ناگزیر تھے۔
یہ پہلی جماعت کی بات ہے۔ سکول میں استانی جی نے ایک لڑکی کو مارا، اور میں نے یہ منظر اپنی معصوم سی آنکھوں سے دیکھا۔ دل ایسا کانپا کہ سکول سے ہی خوف آ گیا۔ اگلے دن اماں سے کہا، “مجھے سکول نہیں جانا۔ میں آپ کے گھر کے سارے کام کر لوں گی، برتن بھی دھو دوں گی، لیکن سکول نہ بھیجیں۔” اماں نے مجھے پیار سے سمجھایا، لیکن میں اپنی ضد پر قائم رہی۔ اماں نے ڈانٹ کےسمجھایا لیکن میں بضد تھی کہ گھر میں ہی رہوں گی۔ آخر اماں نے بید کی سوٹی نکال لی، اور میرا دل دہل گیا۔ میں گھر سے بھاگ کر حویلی اور پھر باہر سڑک تک پہنچ گئی، لیکن اماں میرے پیچھے تھیں۔ اماں نے سڑک کی اس طرف سے آتے ہوئے ایک بڑے بھائی سے کہا، “اسے پکڑ کر لاؤ!”
اس منحوس نے مجھے بازو سے پکڑا اور اماں کے حوالے کردیا۔
اماں نے مجھے آگے لگایا اور خود سوٹی پکڑ کر پیچھے پیچھے سکول تک گئیں، اور راستے بھر میری منتیں اور بہانے سنتی رہیں، لیکن ان کے چہرے پر ہلکی سی بھی نرمی نہ آئی۔ سکول کے دروازے پر سوٹی ہاتھ میں لیے کھڑی تھیں، اور میرے پاس ہار ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس دن کے بعد میرے دل میں سکول نہ جانے کا خیال دوبارہ نہیں آیا۔ جب بھی پیچھے مڑ کے دیکھا، اماں ہاتھ میں بید کی سوٹی لیے کھڑی نظر آئیں ۔
پھر وقت گزرا، اور میں یو ای ٹی لاہور میں انجینئرنگ پڑھنے جا پہنچی۔ فرسٹ ائیر کی بات ہے، جہاں پچاس لڑکوں کی کلاس میں میں اکیلی لڑکی تھی۔ ایک اور لڑکی بھی تھی، لیکن وہ کم ہی آتی تھی۔ اتنے سارے لڑکوں کے درمیان میں سہمی سہمی پھرتی تھی ۔لڑکوں کی نظریں اور باتیں مجھے اپنے اوپر طنز محسوس ہوتیں، اور میں اندر ہی اندر ڈرنے لگی۔ گھر جاکر ایک دن اماں سے کہا، “مجھے یونیورسٹی نہیں جانا کیونکہ سارے لڑکے میرے اوپر ہنستے ہیں ۔”
اماں مسکرائیں اور کنویں پر پانی بھرنے والی لڑکی کی کہانی سنائی:
“ایک لڑکی نے اپنی ماں سے کہا کہ جب وہ کنویں پر پانی بھرنے جاتی ہے، تو لڑکے اسے دیکھتے ہیں۔ ماں نے کہا، ‘بیٹا، کل اپنا گھڑا سر پر رکھ کر سیدھی ناک کی سیدھ گھر آنا۔’ اگلے دن جب وہ آئی تو ماں نے پوچھا، ‘آج کسی نے دیکھا؟’ لڑکی بولی، ‘نہیں، ماں۔’”
میں نے اماں سے کہا، “کنویں کا پانی بھرنے اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے!” اماں نے پینترا بدلا اور قدرے درشتی سے کہا، “اگر پڑھنا نہیں چاہتی ہو تو چلو کسی درزن کے پاس چھوڑ دیتی ہوں یا پھر شادی کر ا دوں تمہاری؟”
یہ سب سن کر میرے تو اوسان خطا ہو گئے اور میں نے یونیورسٹی جا کر پڑھنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ وقت بہت مشکل تھا، لیکن اماں کے پیار اور ڈانٹ نے میرے دل میں ایک حوصلہ اور جذبہ جگا دیا تھا۔ وہ ہر مشکل کے اوپر ایک زیادہ مشکل صورتحال رکھ کے آسانیاں پیدا کرنے میں ماہر تھیں۔
انجینئرنگ کے پہلے سال کا ایک اور واقعہ آج بھی یاد ہے۔ وین میں سرگودھا سے لاہور جاتے ہوئےمیری اور میری دوست کی ایک لڑکی سے اچھی جان پہچان ہوگئ۔ باتوں باتوں میں اس لڑکی نے رابطے کے لیے نمبر مانگا۔ موبائل اس وقت عام نہیں تھے، تو میں نے اپنے گھر کا لینڈ لائن نمبر اسے دے دیا۔
دو ماہ بعد چھٹیوں میں جب میں ہاسٹل سےگھر گئی، تو اماں نے پوچھا، “تم نے کسی کو وین میں اپنا فون نمبر دیا تھا؟”
میں نے سوچ کر کہا، “ہاں، سرگودھا سے لاہور جاتےہوئے وین میں ایک لڑکی کو دیا تھا۔” اماں نے کہا، “ایک دن کسی لڑکے نے فون کیاتھا اور وہ تمہارا نام لےکر تم سے ملنے کی بات کر رہا تھا۔”
یہ سن کر میں حیران اور پریشان ہو گئی۔ اماں نے میری تشویش دیکھتے ہوئے بڑے سکون سے کہا، “پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ میں نے اس کا علاج کر دیا تھا”
اماں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس لڑکے کو گول چوک میں بابا اسلم کی دوکان پر بلایا، اور وہاں اس کی خوب خبر لی۔
بابا اسلم، اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، میری دادی جان کے کزن تھے اور مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔
ہلکی پھلکی چھترول سے ہی وہ لڑکا مان گیا کہ جب میں اس لڑکی کی ڈائری پر نمبر لکھ رہی تھی تو وہ پچھلی سیٹ سے دیکھ رہا تھااور اس نے نام اورنمبر وہاں سے نوٹ کیا تھا۔
اماں نے مجھ سے کہا، “مجھے اپنی بیٹی پر پورا اعتماد ہے، لیکن اس لڑکےکو سبق سکھانا بھی ضروری تھا۔” اس بات کا نہ ابا کو پتہ تھا نہ بھائی کو اور مجھے بھی دو ماہ بعد پتہ چلا۔ لیکن
اس لڑکے کے ساتھ جو ہوئی وہ ساری عمر اس
ڈاہڈی اور کپتی ماں کو یاد رکھے گا۔
اماں کی اپنی کہانیوں میں بھی وہی حوصلہ اور غیرت تھی۔ ایک بار ان کے ڈیرے پر ایک ملازم نے کوئی بدتمیزی کرنے کی کوشش کی۔ اماں نے فوراً سوٹی اٹھائی اور اس کی ٹانگوں پر مار کے کہا کہ چل بھاگ یہاں سے۔ وہ کچھ قدم چلا، واپس پلٹا اور بولا،” میں اپنی بکریاں تو لے لوں۔” اماں نے بکریوں کی رسیاں کھولیں اور اسے بکریوں سمیت بھگا دیا اور کہا، “اگر دوبارہ نظر آئے تو بھائیوں کو بتا کر ایسا حشر کرواؤں گی کہ ساری عمریاد رکھو گے۔” لیکن بھائیوں کو بتانے کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ وہ خود ہی کافی تھیں۔
دوبارہ وہ اماں کے گاؤں میں نظر نہیں آیا۔ اپنا حساب کتاب بھی ماموں کے ساتھ باہر ڈیرے پر ہی کیاہو گا اس نے۔
ایسی تھیں میری ماں، مسئلہ حل کرنے کے بعد بتانے والی۔
وہ ایک مضبوط دیوار تھی، جو ہمیشہ میرے اور دنیا کے درمیان کھڑی رہی۔ بھائی اور ابا کو پتہ چلنے سے پہلے وہ میری ہر مشکل کا حل کر چکی ہوتی تھیں۔
ان کی سختی میں ایک محبت تھی، جو مجھے کبھی بھٹکنے نہیں دیتی تھی۔ ان کی میرے لیے مانگی گئیں ہدایت کی دعائیں میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ایک ڈاہڈی اور کپتی ماں، جن کی ہر سختی کے پیچھے میری بھلائی چھپی تھی، اور ہر کہانی کے پیچھے ایک سبق۔ ان کی دعائیں، سختیاں، اور غیر متزلزل اعتماد نے مجھے وہ بنایا جو میں آج ہوں۔ اماں نے مجھے سکھایا کہ دنیا کے خوف کو خود پر حاوی نہ ہونے دو، بلکہ خود کو اتنا مضبوط بناؤ کہ تمہارا وجود ہی جواب ہو۔
وہ کہتی تھیں، “بیٹا، زندگی میں عزت اور غیرت کے بغیر کامیابی بےمعنی ہے۔ عزت خود اپنے آپ کو مضبوط بنانے سے آتی ہے، اور مضبوطی غلطیوں سے بچ کر، سچائی پر ڈٹے رہنے سے۔”
آج جب میں اپنی کامیابی کے ہر قدم پر کھڑی ہوں، تو مجھے اماں کی وہ بید کی سوٹی یاد آتی ہے، وہ حوصلہ مند کہانیاں اور ان کی سخت محبت۔ اگر وہ نہ ہوتیں، تو شاید میں زندگی کے کسی موڑ پر ہار مان لیتی۔ اماں کی سختیوں نے مجھے یہ سبق دیا کہ عزت اپنی حفاظت کرنے سے اور ہمت ہر خوف کا سامنا کرنے سے ملتی ہے۔
کاش ہم سب مائیں بھی اپنی بیٹیوں کو وہی غیرت، حوصلہ اور اعتماد دے سکیں۔ انہیں یہ سکھا سکیں کہ دنیا کی نظریں تمہیں کمزور کر سکتی ہیں، اگر تم خود کو مضبوط نہ بناؤ۔ ماں کا پیار صرف نرمی نہیں، کبھی کبھی سختی بھی ہے، اور یہی سختی زندگی کے سب سے اہم اسباق سکھاتی ہے۔
میری ماں کی تربیت آج بھی میرے اندر زندہ ہے، اور میں دعا کرتی ہوں کہ ہر بیٹی کو ایسی ہی ماں نصیب ہو، جو محبت میں ڈاہڈی ہو، اور اپنے اصولوں میں سختی سے کاربند، ہر حملہ آور سے بھڑ جانے والی کپتی۔