”کوثر مظہری : اسرار و آثار“:ایک مطالعہ
کوثر مظہری ایک فکشن نگار ہیں ساتھ ہی ایک معتبر فکشن نقاد بھی ہیں۔ فکشن شعریات، اس کی تشکیل و تعبیر اور تنقید کی مختلف جہات پر ان کی بہترین تحریریں موجود ہیں۔ ”کوثر مظہری : اسرار و آثار “مشتاق صدف کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں مختلف قلمکاروں کے وہ مضامین شامل ہیں جو کوثر مظہری کے مختلف گوشوں پر تحریر کئے گئے ہیں۔
کوثر مظہری کی شناخت ایک ناول نگار کے طور پر بھی رہی ہے۔ ان کا اب تک ایک ہی ناول ”آنکھ کو سوچتی ہے“ شائع ہوا ہے لیکن اس نے ناول شناسی کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ کوثر مظہری ایک خلاقانہ ذہن کے مالک ہیں جو حقیقت کو فسانہ بناکر حقیقت سے آشنائی کرانے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔
”کوثر مظہری کے باطن کی سیاحت “ کے تعلق سے عتیق اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ کوثر اچھے نظم گو ہی نہیں ایک اچھے غزل گو بھی ہیں۔ غزل بڑی ظالم صنف سخن ہے جسے میں خود غرض صنف بھی کہتا ہوں ۔جو شاعر کی توقع کو رد کرتی ہوئی چلتی ہے اور اپنی توقع کے مطابق شاعر کو ڈھالنے پر مجبور کردیتی ہے۔ غزل مسلسل استغراق کا تقاضہ کرتی ہے کہ لمحوں کی مہلتوں میں وسیع و بسیط زمانوں کو سمیٹنا وجدان کی مدد کے بغیر آسان نہیں ہوتا۔ نئی نئی ردیفوں ، نئے نئے مضامین اور محسوساتی و فکری سانچوں اور تخلیقی لسانی خوشوں کے ذریعہ اس کے اسلوب کی شناخت ممکن ہے۔
مشہور ناول ”نعمت خانہ“ کے مصنف خالد جاوید ”ہمارا نام کوثر مظہری ہے“کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کے وجود اور شعور کی مٹی ’دکھ‘ میں گندھی ہوئی ہے۔ جس اخلاقیات کا ذکر عام انداز میں ان کی بابت کیا جاتا رہتا ہے ، اس اخلاقیات کی مابعد الطبعیات کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ محض حسیت کو سمجھنا دوسروں کے لیے بھی اور اپنے آپ کے لیے بھی مشکل نہیں کیوں کہ حسیت کی سطح ایک طرح سے خود غرضی کی بھی ہوسکتی ہے۔
”کوثر مظہری : ایک کھلی کتاب“ معروف قلمکار شہزاد انجم کا تحریر کردہ مضمون ہے۔ کوثر مظہری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کی دوستی اور محبتوں کا رشتہ دراز ہے ۔ وہ دوستوں پر جان نچھاور کرنے والے ، ان کا بھلا چاہنے والے، سچے خیر خواہ اور ان کے لیے کسی بھی لڑ بھڑ جانے والے انسان ہیں۔ وہ زود رنج اور سیماب صفت بھی ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس موقعے پر ڈاکٹر مولانا بخش اور عبید الرحمن صاحب (سائنس داں ) کی یاد شدت سے آرہی ہے جو کوثر مظہری کے گہرے دوست تھے اور جن سے ان کا نہایت قربت والا والہانہ رشتہ تھا۔
”مرقع کوثر مظہری “ کے عنوان سے عادل حیات (نئی دہلی) لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کی ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں ہوئی ۔ حروف تہجی سے روشناسی کے بعد گاﺅں کے مڈل اسکول سے ساتویں تک کی تعلیم حاصل کی اور مولانا آزاد اردو ہائی اسکول ، خیروا سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہیں کاشت کاری کا شوق تھا ، چنانچہ نظیر اکبر آبادی کا یہ مصرعہ ”سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تر مری“ کا ورد کرتے ہوئے زراعتی کاموںمیں والد بزرگوار کے ہاتھ بٹانا اپنا فرض اولیں سمجھا۔
کوثر مظہری ادبی مسائل پر جس اعتماد ، گہرے تجسس اور دانشورانہ لگن کے ساتھ غور و خوض کرتے ہیں اور تخلیقی متون کے تجزیے میں جس باریک بینی ، وافر ذہانت اور باخبری کا مظاہرہ کرتے اور متاثر کن انداز میں نتائج اخذ کرتے ہیں۔ کوثر مظہری صاحب کو ایک نقاد کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے قاضی عبدالرحمن ہاشمی لکھتے ہیں:
”کوثر مظہری نے اپنے ابتدائی تنقیدی محاکموں میں جن موضوعات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے ان میں ادب تہذیب اور سماج، عملی تنقید اور تفہیم شعر و شاعری، جدید ادبی نسل رجحانات و مسائل، کلیم الدین کی عملی تنقید وغیرہ پر جس حاکمانہ قدرت اور علمی وقار کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے ان میں ان کے طرز استدلال اور ندرت فکر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ “
(صفحہ: 128)
”کوثر مظہری : معاصر تنقید کا متحرک استعارہ “ کے عنوان سے قدوس جاوید (جموں و کشمیر) لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کی تنقیدی تحریروں میں مشرقی شعریات کی آگہی توجہ کھینچتی ہے، لیکن ساتھ ہی، مغربی لسانی و ادبی نظریات و مفروضات اور اردو شعر وادب پر ان کے اطلاق کے حدود و امکانات سے ان کی دلچسپی بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ معاصر اردو تنقید میں کوثر مظہری کے مقام و مرتبہ کی تعین کی کوشش کی شروعات اس رائے کی بناپر کی جاسکتی ہے۔
ابوذر ہاشمی (کولکاتا ، مغربی بنگال) اپنے مضمون ”ناقد کوثر مظہری کی تلاش میں “ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری تواتر کے ساتھ لکھتے رہے ہیں ۔ وہ شاعر بھی ہیں ، فکشن نگار بھی ۔ بہت سی اصناف میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ہیں۔ اتنی کتابیں لکھ دی ہیں کہ ان کی فہرست ہی مرعوب کردینے کے لیے کافی ہے۔ کثرت تحریر کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ایک اہم جہت ناقدکی بھی ہے۔ اب تک ان کی تنقیدی کاوشوں کے متعدد مجموعے آچکے ہیں۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے ۔ موج ادب ، جرا ¿ت افکار، قرا ¿ ت اور مکالمہ ، ارتسام ، جدید نظم ، حالی سے میرا جی تک ، جواز و انتخاب ، ۰۸ کے بعد کی غزلیں، مختلف شخصیتوں پر چھ مونو گراف ، بازدید اور تبصرے وغیرہ۔
مولابخش (مرحوم) بڑے ناقد تھے ۔ ”کوثر مظہری کی ”جرا ¿ت افکار“ پر ایک قاری کا نوٹ“ کے عنوان سے مولا بخش لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کے پاس نیا ذہن ہے ۔ ان کی اب تک کی نثری کاوشوں جن میں فکشن کے علاوہ ان کی کتاب ”جواز و انتخاب“ میں شامل مقدمہ اور زیر بحث کتاب ”جرا ¿ت افکار“ کے مضامین ہیں، کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی نثر ذہنوں کو دق کرتی ہے۔ کوثر مظہری ادب کی پرکھ کے لیے کسی ایک نظریے پر اکتفا کرنے کو ادب کی تفہیم کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔
”کوثر مظہری : معاصر نقدِ شعر کا معتبر نام“ کے عنوان سے خواجہ محمد اکرام الدین لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری بیک وقت ناقد، شاعر، ناول نگاراور مترجم ہیں۔ شاعری کی تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ انہوں نے اردو نظم کے حوالے سے وقیع تحقیقی کام کیا ہے ۔ ان کی کتاب ”جدید نظم حالی سے میرا جی تک“ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ انہوں نے نظموں کے انتخاب میں تہذیبی تناظر کو ملحوظ رکھا ہے۔ نظموں کا انتخاب ان کی تنقیدی بصیرت کو اجاگر کرتی ہے۔
اسلم جمشیدپور ی کا شمار بھی بڑے قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق میرٹھی ، اتر پردیش سے ہے۔ ”کوثر مظہری بطور فکشن ناقد“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کوثرمظہری اچھے فکشن ناقد ہیں۔ ان کی نظر اردو فکشن خاص کر اردو ناول پر گہری ہے۔ انہوں نے فکشن تنقید میں ”نیا ناول نیا تناظر“ کتاب لکھ کر امید کو روشن رکھا ہے۔ دراصل یہ کتاب ان کے ذریعہ کرائے گئے دو روزہ سیمینار کی روداد ہے جس میں تقریباً تین درجن نئے ناولوں پر ناقدین کے مضامین و مقالات شامل ہیں۔
”کوثر مظہری کی شکیل فہمی “ کے حوالے سے ارشد مسعود ہاشمی نے ایک جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ اپنے مضمون میں موصوف لکھتے ہیں کہ پروفیسر شکیل الرحمن کی تنقید نگاری کے سلسلے میں اردو ناقدین کی بحثیں عرصہ ¿ دراز تک اس نکتے پر ٹکی رہیں کہ وہ آرکی ٹائپ کو آرچ ٹائپ کیوں لکھتے ہیں۔ وہ کہنا کیا چاہ رہے تھے ، اور اپنی تنقید سے کن نئی دنیاﺅں کی تخلیق کر رہے تھے۔ اس پر توجہ کم ہی دی گئی۔ 1951-52سے تنقیدنگاری کی ابتدا کرنے والے اس یگانہ روزگار کو معدودے چند اہل نظر نے تو ہمیشہ قابل توجہ جانا، لیکن گذشتہ دہائیوں میں انہیں جو قدرداں ملے، ان میں ایک نام پروفیسر کوثر مظہری کا ہے۔
ریاض توحیدی ”کوثر مظہری کا تنقیدی اختصاص“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ پروفیسر کوثر مظہری کی بیشتر نگارشات بشمول کتب میں جگہ جگہ تنقیدی استدلال کا سنجیدہ رویہ نظر آتا ہے۔ چونکہ وہ خود بھی عمدہ تخلیق کار ہیں تو ان کی ناقدانہ نظر تخلیق کے تخلیقی رچاﺅ کو بھی پہچان لیتی ہے اور فنی و موضوعاتی قدر شناسی کا عالمانہ حق بھی ادا کرتی ہے۔
ندیم احمد (کولکاتا) ”کوثر مظہری کی تنقید نگاری “کوثر مظہری ہیئت کو ادبی اظہار اور معنوی پھیلاﺅ کا ایک اہم وسیلہ سمجھتے ہیں لیکن ادبی متن کی مملکت میں ہیئت کی مکمل حکمرانی جو دھما چوکڑی مچاسکتی ہے اس کا بھی انہیں شدید احساس ہے۔ چنانچہ ہیئت اور اسلوب اور لفظ و معنی کی بحث میں ان کا رویہ بہت ہی معتدل اور استدلال کی ٹھوس زمین پر قائم ہے۔
معید الرحمن ،کوثر مظہری کی تنقید کا پہلو تلاشنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کوثر صاحب کی تنقیدی فکر کے محرکات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نظری مباحث کو من و عن قبول کرنے کے بجائے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں۔ وہ مذکورہ مغربی تصورات ادب سے احتراز کے مدعی نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی تہذیب، ثقافت اور اپنی جڑوں کی کسوٹی پر ان تصورات کو پرکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
”کوثر مظہری کے 6مونوگراف پر ایک نظر“ کے عنوان سے محمد اکرام (نئی دہلی) اپنے قلم کے جوہر دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اردو زبان وادب میں کوثر مظہری کی شناخت کئی حوالے سے ہے۔ بہ یک وقت وہ ناقد، شاعر، ناول نگار اور مترجم کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ نقادوں نے کوثر مظہری کی ادبی خدمات کا خاطر خواہ اعتراف بھی کیا ہے۔ لیکن ان کے مونوگراف پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق ہیں۔
کتاب کے مرتب مشتاق صدف کوثر مظہری کی تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری معاصر نقادوں میں بہت فعال ہیں۔ انہوں نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے لیکن شاعری کی تنقید ان کا خاص میدان رہا ہے۔ بالخصوص نظم کی تنقید کے حوالے سے ان کی کاوشیں ہمیشہ تذکرے میں رہی ہیں۔ ان کا تنقیدی دائرہ کار وسیع بھی ہے اور مربوط بھی۔ وہ متن کی تفہیم دانشورانہ مباحث سے کرتے ہیں ۔ ان کا تنقیدی سروکار تہذیبی و ثقافتی بھی ہے اور حقیقی کے ساتھ قدرے مذہبی بھی۔ وہ اسلامی تصوف و اسلامی تہذیب کے مختلف دھاروں سے بھی واقف ہیں اور زبان کے سماجی اور تہذیبی کردار سے بھی اور مختلف ادبی نظریات پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔
خالد محمود ”کوثر مظہری کے شعری جہات “ سے متعلق لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری ایک غیور و بے باک انسان ہیں۔ دنیا کے تلخ تجربات نے انہیں ہر غم کو انگیز کرنے اور ہر چیلنج سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بخشا ہے جو ان سے اس پائے کے اشعار کہلواتا ہے۔ کوثر مظہری کے چند اشعار ملاحظہ کریں اور محظوظ ہونے کی کوشش کریں:
یہ شہر والے سمجھ رہے تھے کہ ہم نہیں ہیں
اب ہم جو ابھرے ہیں بن کے تارے تو کون جیتا
بھنور میں دیکھا جو اس نے مجھ کو تو ہنس پڑا تھا
بھنور میں ہے وہ، میں ہوں کنارے تو کون جیتا
شافع قدوائی (علی گڑھ) ”انفرادی سچ کا حسی بیانیہ: رات سمندر خواب“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ”رات سمندر خواب“ میں کوثر مظہری کے پہلے مجموعوں کا ایک انتخاب بھی شامل ہے جس سے ان کے تخلیقی وفور کی مختلف جہتوں کا سراغ ملتا ہے۔
معروف ناقد و شاعر ڈاکٹر جمال اویسی ”کوثر مظہری کا شعری کردار“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کوثر مظہری کی غزلوںمیں جہاں اقداری شکست و ریخت اشعار کے پیکر میں ڈھلی ہیں وہاں اسی خارجیت کا پتہ چلتا ہے ۔ حالانکہ بیشتر مقامات پر شاعر نے ضبط و انصرام سے کام لیا ہے لیکن جہاں کہیں گمشدگی نے زیادہ شور مچایا ہے وہاں خارجیت نمایاں ہوگئی ہے ۔ میری نظر میں کوثر مظہری کی غزلیہ شاعری کا بنیادی وظیفہ ہے اور اس کے بغیر وہ غزل کے شعر نکال نہیں پائیں گے۔