ڈاکٹر منصور خوشتر
ایڈیٹر سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائمز“ دربھنگہ
سید اکبر رضا نقوی اپنے قلمی نام اکبر رضا جمشید کے نام سے معروف ہیں۔ اکبر رضا جمشید کی زیر مطالعہ کتاب ”یادوں کے چراغ“مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں کل 22مضامین ہیں۔ تمام مضامین مشہور و معروف شخصیتوں پر ہے۔
کتاب میں شامل پہلا مضمون ”علامہ جمیل مظہری “ کی شخصیت اور فن پر ہے۔ جمیل مظہری ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے اردو شاعری کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ افسانہ نگار، ناول نگار اور صحافی بھی تھے۔ اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ علامہ جہاں ایک اچھے شاعر تھے وہیں وہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔ وہ شفقت، ہمدردی اور اخلاص کے پتلا تھے ۔ قلب رقیق تھا کہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اپنے، بیگانے سب کے ساتھ حسن سلوک کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ انسانی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
”سید شاہ اصغر حسین“ پر اکبر رضاجمشید کا ایک عمدہ مضمون ہے۔ سید شاہ اصغر حسین صاحب مرحوم پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے تھے۔ وہ اتنی اعلیٰ صلاحیت کے مالک تھے کہ بسا اوقات بہت سارے جج اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ موصوف کو تصنع اور ظاہر داری پسندی نہیں تھی۔ کبھی بھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے بڑوں کا ہمیشہ احترام کرتے تھے۔
صدر جمہوریہ ہند فخر الدین علی احمد کے حوالے سے اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ قاضی عبدالودود صاحب نے میرا تعارف فخر الدین علی احمد صاحب سے کرایا اور میں نے ”نے ناشنیدئہ غالب“ کی ایک کاپی انہیں دی۔ فخر الدین صاحب نے کتاب کا فیتہ کھولا اور کتاب کی رونمائی کی۔ بعد میں فخر الدین علی احمد صاحب نے میری ہمت افزائی کے لیے چند کلمات فرمائے۔
”آقائے شریعت مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہ“ کے عنوان سے اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ آقائے شریعت اکثر و بیشتر مجلس پڑھنے پٹنہ تشریف لاتے تھے۔ جب وہ پٹنہ آتے تو عام طور پر حکیم محمد صالح صاحب مرحوم کے دولت کدہ پر ٹھہر ا کرتے تھے۔ حکیم صاحب کا گھر میرے گھر کے قریب تھا۔ اس لئے جب بھی مجھے موصوف کے آنے کی خبر ملتی تھی میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتا تھا۔
ایک مضمون جسٹس سید سرور علی (جج پٹنہ ہائی کورٹ) مرحوم سے متعلق ہے۔ ان کی شخصیت پر اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ سرور صاحب ایک عظیم انسان تھے۔ وہ بڑی دلکش اور محبوب شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ افسرانہ تحکم اور طمطراق کو عدالت میں ہی چھوٹ آتے تھے اور ملنے والوں سے اتنی گرم جوشی اور بے تکلف سے ملتے تھے کہ ہر ملنے والا یہ احساس لے کر اٹھتا تھا کہ وہ اس کے بہترین دوست ہیں۔
جسٹس علی احمد (جج پٹنہ ہائی کورٹ) کے تعلق سے اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ علی احمد صاحب سے میری پہلی ملاقات پہلی بار ہائی کورٹ میں ہوئی تھی جہاں وہ وکالت کرتے تھے ۔ وکالت خانے میں عام طور پر میں ان کے بغل والی کرسی پر بیٹھا کرتا تھا۔ جسٹس نند لال اونٹوالیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جسٹس نند لال اونٹوالیہ پٹنہ ہائی کورٹ کے ممتاز، مقبول اور ہر دلعزیز جج تھے۔ وہ سیتامڑھی کے رہنے والے تھے۔ پٹنہ ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے انہوں نے بہت نام کمایا۔ اسی شہرت کی وجہ سے 1958میں وہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور 1972سے 1974تک پٹنہ ہوئی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ پھر ترقی پاکر سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے جہاں سے 1980میں ریٹائر ہوئے۔
جسٹس للت موہن شرما (جج سپریم کورٹ ) کے سلسلے میں مصنف لکھتے ہیں کہ جسٹس للت موہن شرما کے والد لال نرائن سنہا کا نام ہندوستان کے نامی گرامی وکلاءمیں ہوتا تھا ۔ وہ ہندوستان کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کے خاص صلاح کار اور ملک کےا ٹرنی جنرل تھے۔ جسٹس للت موہن شرما پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے تھے۔ انہوں نے بحیثیت وکیل کافی شہرت حاصل کی تھی جس کی وجہ سے 1973ءمیں وہ پٹنہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ۔ پھر ترقی پاکر 1987میں سپریم کورٹ گئے جہاں 18نومبر 1992سے 11فروری 1993تک چیف جسٹس آف انڈیا رہے۔
فن صحافت کے تاجدار غلام سرور کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ غلام سرور تحریر و تقریر دونوں اقلیموں کے تاجدار تھے۔ وہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک بیباک صحافی، شعلہ بیان مقرر ، نڈر سیاست داں اور شفیق انسان تھے جس کے دل میں قوم کا درد موجود تھا۔ ان کی شفقت اور درد مندی کی وجہ سے قوم ان سے بے حد محبت کرتی تھی۔ عابد رضا بیدار (ڈائرکٹر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، پٹنہ) اصول کے پابند اور اپنے منصب کے حدود اور دائرہ کار کو بخوبی سمجھتے تھے۔ جب وہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے ڈائرکٹر بنائے گئے تب لائبریری کی حالت میں کافی بہتری آئی۔
موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے حوالے سے اکبر رضا جمشید لکھتے ہیں کہ بہار کے چیف منسٹر عزت مآب شری نتیش کمار آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلے چیف منسٹر ہیں جنہوں نے متعدد بار بحیثیت چیف منسٹر حلف لیا ہے۔ نتیش کمار کی یہ خواہش ہے کہ ہر شخص کو بغیر تفریق مذہب و ملت ہر معاملے میں برابری کا حق حاصل ہو ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب لوگ مل کر فاشسٹ طاقت کو شکست دیں اور اس کی انا کو ختم کریں اور ملک کو ترقی کی راہ پر لگائیں۔
جسٹس نیر حسین خوش وضع، خوش طبع، خو ش مزاج، شریف طینت اور سنجیدہ انسان تھے۔کافی معلومات افزا باتیں کرتے ۔ نہایت نرم لہجے میں گفتگو ہوتی ۔ ضرورت مندوں کی مالی امداد خاموشی سے کرتے تھے۔ جسٹس اقبال احمد انصاری بھی گونا گوں شخصیت کے مالک تھے۔ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ ایسی شخصیتیں جن میں اصلاح یا انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے کبھی کبھار پیدا ہوتی ہے۔
شہنشاہ جذبات فلم اداکار دلیپ کمار کی شخصیت پر اکبر رضا جمشید نے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انسان کے پاس دولت، شہرت اور عزت آجاتی ہے تو اس میں تکبر خود بخود آجاتا ہے لیکن یہ بات دلیپ کمار صاحب میں نہیں تھی۔ بہت شریف اور نیک طبع انسان تھے۔ فضول خرچی اور تصنع کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ کوئی بھی شخص پیدائشی فنکار نہیں ہوتا ۔ اسے اچھا فنکار بننے کے لیے کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہی کڑی محنت اسے بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ یہی بات دلیپ کمار کے ساتھ تھی۔
اس طرح اکبر رضا جمشید پور کی کتاب کافی معلومات فراہم کرتی ہے ۔ کتاب میں بہت سے تصویریں ہیں جو مختلف اوقات کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
٭٭٭