گئے برس کی بات ہے میں نے رہائش بدلی تو نئی رہائش کے پاس ہی ایک ہوٹل تھا ، وہاں سے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ ہوٹل کیا ڈھابہ سا تھا اور اس ڈھابے پہ مزے مزے کے کردار تھے۔
وہاں دو بھائی کام کرتے تھے، بڑا بارہ تیرہ سال کا ہو گا “علی حسن”۔ اسے لکھنا نہیں آتا تھا ، اٹک اٹک کر پڑھ لیتا تھا لیکن لکھ نہیں سکتا تھا۔ میں نے اسے لکھنے پڑھنے کی فضیلت پہ گیان دیا تو کہنے لگا ہاں یہ تو واقعی آنا چاہیے۔ پھر یہ طے ہوا کہ میں اسے کاپی یا رجسٹر لا کر دوں گا اور وہ مجھے روزانہ دو لائنیں لکھ کر دکھایا کرے گا۔
کچھ دن بعد میں نے اسے کاپی پنسل لا دی اور کہا کہ کل اتنی لائنیں لکھ کر لانا ، میں چیک کروں گا۔ اگلے روز کسی مصروفیت کی وجہ سے میں وہاں جا ہی نہیں سکا۔ اس سے اگلے دن گیا تو اسے بلا کر پوچھا کہ ہاں لکھنے والا کام کیا کہ نہیں ؟
وہ فوراً بولا “ہاں دو لائنیں پرسوں لکھ لی تھیں اور دو لائنیں کل۔ لیکن آپ کل آئے نہیں تو میں آج کاپی گھر ہی چھوڑ آیا ہوں”
میں نے اس کی بات پہ یقین کیا اور اسے اگلے روز کاپی ساتھ لانے کا کہا۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ ہوٹل کے اندر سے اس کا چھوٹا بھائی آ گیا۔
وہ نو سال کا بچہ اندر ہی برتن دھونے کا کام کرتا تھا ، اس لیے اس سے میری پہلے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اسے بڑے بھائی سے پتا چلا کہ وہ پڑھانے والے بھائی آئے ہیں تو فوراً باہر آیا اور آ کر سلام لیا اور میرے کان میں کہنے لگا
“میرا بھائی جھوٹ بول رہا ہے۔ اس نے ایک دن کام کیا تھا ، دوسرے دن نہیں کیا۔ آپ اس کے کان کھینچیں تاکہ وہ صحیح سے لکھنا سیکھ لے۔ مجھے تو فر فر آتا ہے لیکن اسے نہیں آتا۔”
یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا اور میں اس کی سادگی اور اپنے بھائی کے لئے اس کے دل میں موجود اخلاص سے متاثر بیٹھا گھونٹ گھونٹ چائے پیتا رہا۔

Recent Comments