جہاں تک عورت کے ذاتی مسائل کا تعلق ہے جیسے نکاح خلع و غیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا ،جو بھی اقدام کیا جائے گا عورت کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔ایک صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مالدار شخص سے کرا دیا ۔لیکن لڑکی اس کو پسند نہیں کرتی تھی ،اس نے حضور ۖ سے عرض کیا ! میرے والد نے میری شادی اپنے ایک دولت مند بھتیجے سے کر دی تاکہ مجھ کو پھنسا کر اپنی تنگ دستی کا سامان مہیا کریں ۔ آپۖ نے
اس کیٹا گری میں 550 خبریں موجود ہیں
موجودہ حالات میں ہرانسان پریشان حال اور پریشانیوں کے حل کا متلاشی
اگر مسائل کے حل کیلئے صحیح جگہ کا انتخاب کیا جاتاتو آج دنیا مسائل کا گڑھ نہ ہوتی
کتاب اللہ اور حدیث پاک کا سہارا لینے سے تمام مسائل آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں
۔جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ اس کی کرائی شادی کو بھی توڑ سکتا تھا ۔زمانہ ما بعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہو گیا اور اب اسکے اختیارات
میںنے دنیا میں دیکھا کہ ہر کوئی دوسرے کا دشمن بنا پھرتا ہے۔ مرنے مارنے کو دوڑتا ہے اور دنگا فساد کرتا ہے۔ پھر میںنے قرآن کی یہ آیت پڑھی کہ” یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسکو اپنا دشمن سمجھو” اسکے بعدمیں نے صرف شیطان کو ہی اپنا اصل دشمن سمجھ لیا اور انسانوں سے لڑنا بند کر دیا اب شیطان ہی سے مجھے عداوت ہے اور میں اسی سے اپنے بچائو کا پورا بندوبست رکھتاہوں اب کسی اور سے میری کوئی عداوت نہیں ہے او رمیں امن سے ہوں۔
بد عمل سے جو تم کو ایک نوالے کے بدلے بیچ دالے گا اور اس سے کمتر کی طرح سمجھے گا
خدا کو تلاش کرو
یہ چو نکہ ا پ کی اکلو تی اولا د تھی اس لیے آپ حضرت اسما عیل سے بے حد محبت کر تے تھے ہر وقت انھیںساتھ لیے پھرتے انھیںایک پل کے لیے بھی اپنی نظروں سے او جھل نہ ہو نے دیتے تھے خدا کو ان کا امتحان لینا مقصود ہو ا تو حکم ہوا کہ اپنے شیر خوار بچے اور اہلیہ کومکہ کے بیا باں صحرامیں چھو ڑ د و ” آپ کی فر شتہ صفت اہلیہ کو
حدیث شریف ہے کہ ہرشخص کو دن میں ایک سو مرتبہ استگفار کرنی چاہیے۔ںبی پاک ؤ نے فرمایا مگر میں دنیاوی مصروفیات ی وجہ سے استغفار ایک سومرتبہ نہیں پڑھ پاتا۔صبھاناللہ
نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو اسکے دماغ کی شریانوں کی طرف خون زیادہ ہو جاتا ہے۔جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا۔صرف سجدہ کی حالت میں دماغ اعصاب ،آنکھوں اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون متوازن ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے دماغ اور نگاہ بہت تیز