منیر نیازی چند یادیں تو ہیں

بڑے ناموںاوربڑے انسانوں کی شخصیات کو الگ کرنا تاریخی ضرورت ہے کیونکہ بڑا نام بڑا انسان بھی ہو یہ ضروری نہیں ہے اور بہت سے بڑے لوگوں سے ملنے کے بعد میں نے اپنے جیسے ہوش مند لوگوں کو اکثر ما یوس ہوتے بھی دیکھا ہے)۔نیازی صاحب سے میں نے بہت سے لوگوں کو محبت کرتے بھی دیکھا ہے اور بہت سی”بے چین روحوں ”کو ان

شاعروں ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز

کتاب کے مرتب زاہد گوگی، بلیک بیلٹ ہیں لہذا ہماری اطلاع کے مطابق تاحال کسی قسم کا ہتک عزت کا کوئی دعوی سامنے نہیں آیا۔ یوں بھی کتاب میں جن مشاہیر کے بارے میں سنسی خیز اور “راتوں کی نیند اڑا دینے والے” انکشافات درج ہیں، ان میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے، مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی، انیس ناگی،

محمونہ خان کی کتاب ماضی کی جھلکیاں

وہاں انکی ملاقات دوبئی سے ناکام لوٹ کر آنے والے مسافروں سے ہوئی۔انہوں نے انہیں خبردار کیا کہ دوبئی میں کام ملنا اور سیٹ ہونا بہت مشکل ہے۔مگر پاپا واپسی کے لیے تیار نہیں تھے۔انہوں نے اگلے روز ایک بڑی سی کشتی میں سوار ہو کر دوبئی کا رخ کیا۔کچھ دیر

کاشف کمال کے شعری مجموعے کی کویت میں رونمائی رپورٹ رومانہ قریشی

سفیرِ پاکستان کے موثر و جامع خیالات کے اظہار کے بعد صاحبِ کتاب کو کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر کے لئے دعوتِ سخن دی گئی ۔آغاز میں انہوں نے اپنے کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت و اجراء ممکن ہو سکا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ سرور خان سرور، پروفیسر ریاض احمد قادری اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین

اثر غوری کی شاعری میں پر اسرار کیفیات

ہمیں تو ان اشعار کا قاری چونکنے سے زیادہ خوف زدہ ہو تا نظر آتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس کو جناب اثر غوری کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے ۔ خامہ بگوش کی رحلت کے بعد ان کے دیرنیہ ہمدم، استاد لاغر مراد آبادی ہمیں ایک چائے خانے میں بیٹھے مل گئے۔ان چھ برسوں میں وہ مزید لاغر ہوچکے ہیں لیکن بذلہ سنجی کا وہی عالم ہے جو خامہ بگوش کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ استاد نے یہ اشعار سن کر فرمایا کہ ” اس قسم کے اشعار کے ساتھ تو کسی کھنڈر ہی میں اترا جاسکتا ہے۔لیکن شاعر کو

محمد منشا یاد کی ادبی خدمات

محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے ۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا ۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ

خلائوں میں اڑتی شاعری دوسرا حصہ تحریرراشد اشرف

جناب عبدللہ جاو ید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری کوعلامتی نہیں بلکہ ‘ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا، لیکن ہم ایسی شرپسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس