محترم سامعین! میں جو اپنی انا کا سربلند رکھنے میں بہت مشہور سمجھا جاتا ہوں اور بیباکی جس کا شیوہ ہے، آج تسلیم الہی
زلفی کی علمی و ادبی شخصیت پر کچھ کہنے میں اپنے آپ کو بے بس و ناتواں محسوس کر رہا ہوں ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ زلفی کے کس ادبی رخ پر بات کروں اور ان کے فن کے کس پہلو کا احاطہ کروں ۔ یہ وہ شش جہت ہیرہ ہیں جنہیں نہ کسی
اس کیٹا گری میں 1560 خبریں موجود ہیں
یہ درست ہے کہ رالف رسل کے علاوہ اور بھی بہت سے انگریزوں نے اردو کو قابلِ توجہ سمجھا بلکہ بعض نے تو اردو میں شاعری تک کی اور حقہ پی پی کر شعر کہے، لیکن یہ عام طور پر اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز اور اسکی انگریزی نے ابھی ہمیں اپنے دام میں گرفتار نہیں کیا تھا۔ ہمارا اپنا تشخص برقرار تھا اور ہمیں اس پر ناز بھی تھا۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا
کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکتھے ہوئے کہا۔
“میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں۔”
اس وقت 19سوئس کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں ایک بلین $سے زائد سرمایہ کاری کی ہے ۔اِن کمپنیوں میں حبیب میٹروپولیٹن بینک،نوارٹس،نیسلے،اے بی بی وغیرہ ایسی کمپنیاں ہیں جنہوں نے براہِ راست پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔دونوں ممالک کے تاجروں کے درمیان کاروباری شراکت کی مثالیں لاتعداد ہیں جبکہ ان کاروباری شراکتوں کی وجہ سے تاجر دونوں ممالک میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے
اس نے بتایا کہ وہ پاکستان مستقل رہنے کیلئے آیا تھا۔ لیکن چھ ماہ یہاں گذارنے کے بعد اپنا ارادہ بدل کر واپس جا رہا ہے۔ ا سکی تفصیل یہ تھی کہ وہ کئی سال سے کسی مسلمان ملک میں آباد ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اسکی نگاہِ انتخاب پاکستان پر اس لئے پڑی کہ یہ واحد مسلمان ملک تھا جو ایٹمی طاقت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا میں یہ ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا ۔ یہ ترقی اسکے اندازے کیمطابق ذ ہنی بھی ہوگی اور معاشی بھی۔
ہاجرہ مسرور نہیں چاہتیں کہ لوگ انہیں موجودہ حال میں دیکھیں۔ بیاسی برس کی ہوگئی ہیں، بیماری انسان کے مزاج پر بھی تو خوفناک طریقے سے حملہ آور ہوتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ہاجرہ مسرور اسپتال سے واپس آئی ہیں۔
کتب فروش رویہ بھی مختلف رکھتے ہیں، ایک تو بہت ہی بدمزاج ہے، کھڑے کھڑے گاہک کی بے عزتی کرتے بھی بارہا دیکھا ہے:
تم لوگ بھی غضب ہو، کہ دل پہ یہ اختیار شب موم کرلیا، سحر آہن بنا دیا
جنوری 8 اور 15 کے اتوار بازاروں کی سیر کے دوران سخت خنک ہوا نے وہ مزاج پوچھے کہ کیا ہی کہنے، خصوصا
کہیں بیٹھے بیٹھے مجھے دیر ہو جاتی تو میں سوچتا کہ گھر فون کر کے بیوی کو اطلاع دے دو مگر اسی سوال کے ذہن میں آتے ہی میں اپنے اس خیال کو ذہن سے کھرچ دیتا۔ البتہ جب میں رات گئے گھر لوٹتا تو وہ مجھ سے کوئی استفسارنہ کرتی بلکہ کھوجنے والی نگاہوں سے تکتی رہتی۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے میں کہتا۔
احمد فراز کے بہت ہی قریبی دوست اور معروف شاعرمحسن احسان کی گفتگو میںقیمتی یادوں کا یہ عکس جھلکتا ہے ۔پشاور شہر کے مشاعرے ،ریڈیو پاکستان پشاور کی ادبی سرگرمیاں اور احمد فراز کے ساتھ گزارے ہوئے دن،انہیںیادوں کے بہترین موسم لگتے ہیں ۔ محسن احسان بتاتے ہیں ”میرے والد کی فرنیچر کی دکان تھی اور میں اسکول کے بعد اس دکان پر جاکر بیٹھا کرتا تھا ۔میری عمر کاایک لڑکا سامان مرمت کروانے کے لیے آتا،میری اس سے گپ شپ ہوتی۔یہ میر اہم عمر احمد فراز تھا ۔ہماری
ا ﷲ تعالیٰ خیر الماکرین ہے ۔ اس نے اپنی جناب سے ترکی کی مٹی سے ہی ایسے لوگ پیدا کردئے جن کے اندر قومی غیرت تھی ، اور جنھوں نے جب یہ عزم کر لیا کہ ہم نے ترکی کو غیروں سے بچا نا ہے تو ، اﷲ تعالیٰ نے ان کے ارادے میں برکت ڈالی ۔ اور ترکی اپنے اور،پرائے ،تمام شر پسندوں سے بچ گیا۔