قلعے کی دوسری جانب ایک عمارت کی روشنیاں ایسی تھیں جیسے آگ جل رہی ہو۔ اسے دیکھ کر ہی گرمی اور سلگتی آگ کی حدت سی محسوس ہوتی تھی۔
اس کیٹا گری میں 1539 خبریں موجود ہیں
میں باوجود خواہش کے اسکی دعوت قبول نہ کر سکی۔جب ہم نے اکدوسرے کو الوداع کہا تو ہمارے چہروں پہ ایک انجانی سے اداسی کا سایہ لہرا گیا۔پھر اس نے اپنے لبوں پہ مسکراہٹ سجا کر ہمیں رخصت کیا۔اس وقت بارش خوب تیز ہو گئی۔ سوزر لینڈ کے جنگل تیز ہوا اور
بلکہ پنجاب میں ایک دیہی علاقہ ایسا بھی ہے جہاں انکی تاریخی رومانوی خاتون ہیر پر بننے والی فلم کو سنیمہ پر لگانے کی اجازت نہیں ۔غالباً اس سے بھی انکی پگڑی اچھلنے کا خطرہ ہوتا ہو گا۔دوسری رومانوی فلموں مثلاً سوہنی مہینوال، سسی پنو، اور لیلیٰ مجنو جیسی شہرہ آفاق فلموں کی نمائش پر اس علاقے سے کسی اعتراض کی
گر سرائے کے اندر کا دروازہ اور باہر والا سلاخوں کا دروازہ دونوں کھلے ہوتے تو پھر گھر کے کسی پنجرے میں رہنے کا احساس ہوتااور مجھے تو کئی بار محسوس ہوا کہ اپنی سرخ ٹائی، سبز ہیٹ اور بی اے کی ڈگری کے باوجود میں کوئی بہتر قسم کا لنگورہوںجو کھڑکی میں سے نیچے اسٹیشن کے سامنے بیٹھے ہوئے بندروں کو پہچان کر بھائی بندی کے جذبے کے تحت مسکرا
اولڈ وہوم ان کے لے کسی قید خانے سے کم نہیں۔انکا بس چلے تو وہ خود ہی اسے آگ لگا کر بھاگ جائیں۔وہ تو اپنے بچوں ،بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے درمیان آزادی کی زندگئی گزارنا چاہتے ہیں۔اکثر بوڑھے اسی آزادی کی خاطر فرار ہوتے ہوئے
ایک اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لیے ادبی اور غیر ادبی دونوں عناصر کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔جہاں ایسا ممکن ہے وہاں وہاں یقینا§ ایسا ادب تخلیق ہو گا جو اخلاقی اقدار کے سامنے سرنگوں ہو گا۔
لاس اینجلس میں ہی قیام کے دوران میں نے سنا تھا کہ میرے ایک دوست کی دوست ہسپانوی ہارلیم نزدکولمبیا میں اپنا پارٹمنٹ چھوڑ رہی ہے ۔ اور نیو یارک کی رئیل مارکیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے جلد از جلد وہاں پہنچ کر قبضہ کر لینا چاہیے۔باہمی اتفاق
محمد خالد اختر کے سفرناموں میں پڑھنے والوں کو مسحور کرنے والی بات ان انسانی کرداروں کی رنگا رنگی ہے جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صورت حال سے دوچار انسانوں پر مشتمل زندگی کا میلہ ہی ہے جس سے محمد خالد اختر کا سفری تجربہ عبارت ہے۔ وہ اپنے ان عارضی ہمسفروں ،مختلف پس منظر رکھنے والے عام لوگوں سے بھرپور تخلیقی دلچسپی لیتے ہیں اور ہمدردی اور گہرائی سے بنائی گئی تصویروں کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنے اس مطالعے میں شریک کرتے ہیں۔اس عمل میں محمد خالد اختر کی تخلیقی شخصیت کا فکشن نگار پہلو پوری طرح بروئے کار آتا ہے۔
ایک وزیر عالی مرتبت نے تو سرے سے جوتے والے واقع کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔کیا کہنے آپ کے۔ایسے حاکم وقت کے مداحوں کا رول بہت قابل تعریف ہے۔وہ ہر لمحہ میڈیا کے چلتروں کا جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یقیناً انہیں اپنے بیچارے حاکم پہ ترس ا تا ہو گا۔انکے جانثاروں کے لیے یہ بہت کڑی گھڑی ہے۔انہیں
حکومت کوئی بھی ہو طاقت کے دمسے چلتی ہے۔ان ترکیبوں پہ عمل کر کے `پ ایک ùیڈیل بہو بن سکتی ہیں۔اور ہاں یہ ترکیب کسی اور کو بتانا نہیں