انیس بیس کا فرق تحریر :طارق محم مشمولہ :ادب لطیف لاہور خاص نمبر ،ایک سال دو ہزار بارہ ،صفحہ 315 اللہ دتہ(میرا پی۔ اے ) نوبل انعام یافتہ عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا کلاس فیلو رہ مزید پڑھیں
اس کیٹا گری میں 291 خبریں موجود ہیں
شازیہ عندلیب کیا آپ جانتے ہیں کہ کس جانور کا بچہ سب سے ذیادہ معصوم اور بھولا بھالا ہوتا ہے؟ وہ کون سا جانور ہے جس کے بچوں کی معصومیت کے مقابلے میں اسکا بچہ اول آئے گا،یعنی مسٹر معصوم مزید پڑھیں
وصالِ یار کی ، سی ڈی میں سو سو پیچ و خم نکلے!
وہاں اب ہر طرف کمپیوٹروں کے چوہے پھرتے ہیں
اب ہم کیا عرض کریں؟ اگلے وقتوں کے ایک اور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا ایک حکم ہمیں موصول ہوا ہے کہ: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو سو ہم انھیں کچھ نہیں کہتے۔ فقط پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے فضائل، مناقب اورکرامتیں ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو اے بزرگو! جب تک ہمارے سماج کا نطق پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ
کنور صاحب نے نوجوان کی شکل دیکتھے ہوئے کہا۔
“میں ملزم کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہتھکڑیاں کھول دو، یہ بیچارہ تو ایک شاعر ہے، شعر چرانے کے علاوہ کوئی اور چوری کرنا اسکے بس کا روگ نہیں۔”
ہمیں تو ان اشعار کا قاری چونکنے سے زیادہ خوف زدہ ہو تا نظر آتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ اس کو جناب اثر غوری کی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے ۔ خامہ بگوش کی رحلت کے بعد ان کے دیرنیہ ہمدم، استاد لاغر مراد آبادی ہمیں ایک چائے خانے میں بیٹھے مل گئے۔ان چھ برسوں میں وہ مزید لاغر ہوچکے ہیں لیکن بذلہ سنجی کا وہی عالم ہے جو خامہ بگوش کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا۔ استاد نے یہ اشعار سن کر فرمایا کہ ” اس قسم کے اشعار کے ساتھ تو کسی کھنڈر ہی میں اترا جاسکتا ہے۔لیکن شاعر کو
بلکہ پنجاب میں ایک دیہی علاقہ ایسا بھی ہے جہاں انکی تاریخی رومانوی خاتون ہیر پر بننے والی فلم کو سنیمہ پر لگانے کی اجازت نہیں ۔غالباً اس سے بھی انکی پگڑی اچھلنے کا خطرہ ہوتا ہو گا۔دوسری رومانوی فلموں مثلاً سوہنی مہینوال، سسی پنو، اور لیلیٰ مجنو جیسی شہرہ آفاق فلموں کی نمائش پر اس علاقے سے کسی اعتراض کی
گر سرائے کے اندر کا دروازہ اور باہر والا سلاخوں کا دروازہ دونوں کھلے ہوتے تو پھر گھر کے کسی پنجرے میں رہنے کا احساس ہوتااور مجھے تو کئی بار محسوس ہوا کہ اپنی سرخ ٹائی، سبز ہیٹ اور بی اے کی ڈگری کے باوجود میں کوئی بہتر قسم کا لنگورہوںجو کھڑکی میں سے نیچے اسٹیشن کے سامنے بیٹھے ہوئے بندروں کو پہچان کر بھائی بندی کے جذبے کے تحت مسکرا
محمد خالد اختر کے سفرناموں میں پڑھنے والوں کو مسحور کرنے والی بات ان انسانی کرداروں کی رنگا رنگی ہے جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صورت حال سے دوچار انسانوں پر مشتمل زندگی کا میلہ ہی ہے جس سے محمد خالد اختر کا سفری تجربہ عبارت ہے۔ وہ اپنے ان عارضی ہمسفروں ،مختلف پس منظر رکھنے والے عام لوگوں سے بھرپور تخلیقی دلچسپی لیتے ہیں اور ہمدردی اور گہرائی سے بنائی گئی تصویروں کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنے اس مطالعے میں شریک کرتے ہیں۔اس عمل میں محمد خالد اختر کی تخلیقی شخصیت کا فکشن نگار پہلو پوری طرح بروئے کار آتا ہے۔
ایک وزیر عالی مرتبت نے تو سرے سے جوتے والے واقع کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔کیا کہنے آپ کے۔ایسے حاکم وقت کے مداحوں کا رول بہت قابل تعریف ہے۔وہ ہر لمحہ میڈیا کے چلتروں کا جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یقیناً انہیں اپنے بیچارے حاکم پہ ترس ا تا ہو گا۔انکے جانثاروں کے لیے یہ بہت کڑی گھڑی ہے۔انہیں