سفیرِ پاکستان کے موثر و جامع خیالات کے اظہار کے بعد صاحبِ کتاب کو کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر کے لئے دعوتِ سخن دی گئی ۔آغاز میں انہوں نے اپنے کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت و اجراء ممکن ہو سکا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ سرور خان سرور، پروفیسر ریاض احمد قادری اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین
اس کیٹا گری میں 281 خبریں موجود ہیں
محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے ۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا ۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
جناب عبدللہ جاو ید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری کوعلامتی نہیں بلکہ ‘ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا، لیکن ہم ایسی شرپسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس
امجد اسلام آجکل اردو اخبار ایکسپریس میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ الحمراء آرٹس کاوئنسل میں بھی بیٹھتے ہیں۔جلد ہی معروف شاعر منشا یاد کی افسوسناک جدائی پر انکا کالم اردو ایکسپریس پر پڑھنے کو ملے گا۔ امجد اسلام اس عطیم ادبی شخصیت کے بچھڑنے پر بہت دلگرفتہ نظر آتے ہیں۔آجکل امجد ناروے میں
یہ افسوسناک کہانی ہے ،دینہ کے جہانگیر اعوان کی جو 1990ء میں اپنے گھر گلشن دیس مٹی کی خوشبو اور خونی رشتوں کی بہاریں چھو ڑ کر سیاحت کے ویزے پر امریکہ آیا ۔اور اپنے پسینے سے خاندان کا مستقبل سیراب کرنے لگا۔
تنہائی میں ساکن خاموش دیواروں اور چھت سے باتیں کرنے والے عام طور پر کئی ایک موذی امراض کو سینے میں بسا
حا لت یہ ہے کہ ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص بھوک کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتا ہے۔ یعنی جسے روٹی کا نوالہ میسر نہیں وہ موت کا نوالہ بن رہا ہے۔18000 بچوں سمیت 25 ہزار انسان روزانہ مرتے ہیں جبکہ ایک سال میں یہ تعداد 90 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ جو کہ ملیریا ،کینسر، ایڈز اوردیگر موذی
بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباء اور شعراء کو قید کرنے سے بہتر ان کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے ، جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب
طاہر نقوی کی دو کتابوں بند لبوں کی چیخ اور دیر کبھی نہیں ہوتی کو قومی سطح کے ادبی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طاہر نقوی ٹیلی ویژن کے خاصی تعداد میں ڈرامہ سیریلز۔ سیریز اور طویل دورانئے کے ڈرامے تحریر کرتے رہے ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں بارش کے بعد۔ آدم کے بیٹے۔ عمر قید۔ کسک
مصنف کو اپنی اہلیہ سے ایسی محبت کہ کتاب میں جہاں ان کے پہلی بار یرقان میں مبتلا ہونے کا احوال شامل ہے وہاں ان سے فون پر ہونے والی آخری گفتگو بھی شامل کی گئی ہے، عالم بالا میں اپنی اہلیہ کی ممکنہ پذیرائی کا منظر بھی بیان کیا گیا ہے!
جامی صاحب اپنے جابجا و برجستہ فقروں سے محفل کو دلچسپ بنائے ہوئے تھے، مذکورہ عنوان پر احباب نے دو ایک تیر پھینکے، ایک خاتون کی آواز آئی:
” بھئی اس عنوان پر ایدھی کا سرد خانہ یاد آگیا”