آغا جانی کشمیری نے ساٹھ کی دہائی میں اپنی زندگی کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے اپنی خودنوشت سحر ہونے تک کے عنوان سے تحریر کی۔ خودنوشت کو لکھنے جانے کے دوران منور آغا مجنوں لکھنوی اور پروفیسر احتشام حسین ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ اس کتاب میں سردار جعفری اور راجندر سنگھ بیدی کی آرا (طویل مضامین کی شکل) میں بھی شامل ہیں۔
اس کیٹا گری میں 496 خبریں موجود ہیں
صاحبو! خواتین کا جلسہ بھی خوب تھا، صنف نازک کا وہ جم غفیر کہ بقول شخصے قاعد اعظم اس روز رات کو ایک بزرگ کے خواب میں آئے اور کہا کہ “میں نے اتنے وسیع پیمانے پر خواتین کا مجمع اپنی تمام زندگی میں نہیں دیکھا
وہ سامنے غسل خانہ ہے، یہ نیند کی گولی ضرور کھا لینا،رات کو آرام سے سونا، کوئی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دے دینا لیکن کمرے سے باہر مت نکلنا، صبح جلدی اٹھنا ہے۔۔ باریش شخص نے اسے تنبیہ کی۔ اس کے منہ میں بڑا سا نوالہ تھا اس لیے وہ محض سرہلا کررہ گیا۔کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر وہ چلا گیا تھا اور خودکش حملہ آور چارپائی پر نیم دراز ہوگیا۔
چاہت سے تلاشے ہیں محبت سے لکھے ہیں
جو حرف ترے نام کی نسبت سے لکھے ہیں
روئیں گی انھیں پڑھ کے زمانے کی نگائیں
وہ لفظ کہ جو ہم نے اذیت سے لکھے ہیں
لڑکا Jeff اگے بڑھا مجھے آہستہ سے ہائی کہا اور ایک عورت کے کان میں کھسر پھسر کی – وہ آگے آئی اور مجھے تابوت کے پاس لے گئی آئی لن ویسے لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے اس دِن چرچ سے واپسی پر دیکھا تھا اور وہی سرخ چمکدار بلوز پہنا تھا بلکل تیار ،مک اپ کیا ہوا، بال سامنے سے بنے ہوئی ،چہرے پر ہلکا جالی کا سیاہ نقاب — – عورت
اس علاقے میں موجود پاکستانی اور انڈین کمیونٹی پر جب یہ انکشاف ہوا کہ اردو کے مشہور شاعر انکے شہر میں موجود ہیں شائقین نے صرف پانچ گھنٹوں میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔جمشید مسرور کے مداحوں نے ادبی محفلوں کے شائقین میں تقریب کے پمفلٹس تقسیم کیے۔ پانچ گھنٹوں کی قلیل مدت میں دنیا کے مصروف ترین ملک میں اردو مشاعرے کے لیے لوگ اکٹھے
قرار دیا جاتا ہے -لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں ہزارہا مثبت مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں اپنے کاروبار اور مشن کو پھیلانے کے لئے بہترین زریعہ ھے- وہیں لاکھوں اسے منفی مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں حتی کہ صدر اوبا ما کو بھی خبردار کرنا پڑا کہ فیس بوک پر تصویر ڈالتے ہوے احتیاط لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ انتباہ
یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں،
توبہ کرنا آسان ہے لیکن گناہ چھوڑنا مشکل ہے۔
غرور عقل کے لیے آفت ہے۔
نظر آنے والی حقیقت ہمیشہ آدھا سچ ہوتی ہے۔
میرے اتنے قریب مت بیٹھو
کوئی آفت کھڑی نہ ہوجائے