نخوت پسند لوگوں کو چھوڑ ان کے حال پر
وقت انکے نکالے گاخود بل راستہ بدل
سوچوں میں جن کی نہیں تازہ ہوا کا گزر
اس کیٹا گری میں 496 خبریں موجود ہیں
نہ شرم و غیرت آن ہے باقی
ہے تو بس جھوٹی آن ہے باقی
جس چمن کے رکھوالے ہیں ہم
اسی چمن کو لوٹنے والے ہیں ہم
ستارے توڑ نہ پائوں
توازن جو نہ رہ پائے
تمہارے کام نہ آئوں
کتاب کے مرتب زاہد گوگی، بلیک بیلٹ ہیں لہذا ہماری اطلاع کے مطابق تاحال کسی قسم کا ہتک عزت کا کوئی دعوی سامنے نہیں آیا۔ یوں بھی کتاب میں جن مشاہیر کے بارے میں سنسی خیز اور “راتوں کی نیند اڑا دینے والے” انکشافات درج ہیں، ان میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے، مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی، انیس ناگی،
وہاں انکی ملاقات دوبئی سے ناکام لوٹ کر آنے والے مسافروں سے ہوئی۔انہوں نے انہیں خبردار کیا کہ دوبئی میں کام ملنا اور سیٹ ہونا بہت مشکل ہے۔مگر پاپا واپسی کے لیے تیار نہیں تھے۔انہوں نے اگلے روز ایک بڑی سی کشتی میں سوار ہو کر دوبئی کا رخ کیا۔کچھ دیر
سفیرِ پاکستان کے موثر و جامع خیالات کے اظہار کے بعد صاحبِ کتاب کو کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر کے لئے دعوتِ سخن دی گئی ۔آغاز میں انہوں نے اپنے کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت و اجراء ممکن ہو سکا۔ انہوں نے اپنے اساتذہ سرور خان سرور، پروفیسر ریاض احمد قادری اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین
محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے ۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا ۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
جناب عبدللہ جاو ید کے مذکورہ بالا بیانات کو پڑھ کر صوفیہ ملامیہ کے اڑوس پڑوس سے تعلق رکھنے والے بہت سے حاسدوں نے کہا کہ جناب شاعر کی شاعری کوعلامتی نہیں بلکہ ‘ملامتی ‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا، لیکن ہم ایسی شرپسندانہ باتوں پر سے کان ہی نہیں دھرتے۔ البتہ جاوید صاحب کے اس
امجد اسلام آجکل اردو اخبار ایکسپریس میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ الحمراء آرٹس کاوئنسل میں بھی بیٹھتے ہیں۔جلد ہی معروف شاعر منشا یاد کی افسوسناک جدائی پر انکا کالم اردو ایکسپریس پر پڑھنے کو ملے گا۔ امجد اسلام اس عطیم ادبی شخصیت کے بچھڑنے پر بہت دلگرفتہ نظر آتے ہیں۔آجکل امجد ناروے میں
یہ افسوسناک کہانی ہے ،دینہ کے جہانگیر اعوان کی جو 1990ء میں اپنے گھر گلشن دیس مٹی کی خوشبو اور خونی رشتوں کی بہاریں چھو ڑ کر سیاحت کے ویزے پر امریکہ آیا ۔اور اپنے پسینے سے خاندان کا مستقبل سیراب کرنے لگا۔
تنہائی میں ساکن خاموش دیواروں اور چھت سے باتیں کرنے والے عام طور پر کئی ایک موذی امراض کو سینے میں بسا