ڈنمارک : انتخابات میں سرخ بلاک کی جیت ۔ ھیلے تھورنگ سمتھ پہلی خاتون وزیر اعظم

ڈنمارک میں کرائے گئے پارلیمانی انتخابات کے بعد، نظام کی تبدیلی ایک حقیقت بن گئی ہے ۔ وینسٹرا پارٹی کے وزیر اعظم لارس لکے راسموسن نے اپنی پارٹی کی شکست تسلیم کرتے ہوئے، سوشل ڈیموکریٹ پارٹی چیئرپرسن ھیلے ٹھورنگ شمتھ کو ان کی پارٹی اور سرخ بلاک کی کامیابی پر مبارکباد دی ہے اور اب ھیلے تھورنگ سمتھ ڈنمارک کی پارلیمانی جمہوری تاریخ میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھال رہی ہیں ۔
پچھلے تین ہفتوں سے جاری انتخابی تحریک کے بعد، کل جمعرات کو کرائے گئے انتخابات کے نتیجے میں، سوشل ڈیمو خریٹ کی سربراہی میں سرخ بلاک کی فتح کے بعد، سوشل ڈیموکریٹ ارٹی کی چیئرپرسن، ھیلے تھورنگ شمتھ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا عہدہ سنبھال رہی ہیں ۔
مبصرین کے مطابق، انتخابی نتائج کے بعد اب، سوشل ڈیموکریٹ اور ایس ایف دونوں پارٹیاں اگرچہ کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھیں لیکن ریڈیکل اور انھد لسٹن دونوں پارٹیاں کی کامیابی کے بعد اب سرخ بلاک حکومت سنبھال رہا ہے اور ایک طرح سے یہ صرف بائین بازو کے دس سالہ اقتدار ی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک بائیں بازو کی ایک نئی حکومت اور ایک نئے نظام کا آغاز بھی ہے ۔
ڈی آر نیوز کے مطابق، سرخ بلاک کو 89 پارلیمانی نشستیں ملی ہیں جبکہ اس کے مد مقابل دائیں بازو کے نیلے بلاک کو 86 نشستیں مل سکی ہیں ۔ اس کے علاوہ گرین لینڈ اور جزائر فیرو سے سرخ بلاک کے لیے تین ارکان پارلیمنٹ اور نیلے بلاک کے لیے ایک رکن چنا گیا ہے ۔
سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی ھیلے تھورنگ شمتھ وزارت عظمی کا قلمدان تو سنبھالنے والی ہیں لیکن انہیں وزارتوں کی تقسیم کے معاملوں پر کچھ سخت مطالبات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اور بیشک وہ اقتدار سنبھال رہی ہیں لیکن وہ ایک ایسی پارٹی کی بنیاد پر حکومت بنا رہی ہے جس نے انتخابات میں اپنی ایک نشست کھو دی ہے اور 44 ارکان کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوئی ہے اور یہ خود ان کی اپنی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی ہی ہے ۔
سرخ بلاک میں شامل، ایس ایف پارٹی بھی، انتخابات کے نتیجے میں اپنی وہ پوزیشن کھو چکی ہے جس کی بنا پر وہ خود کو حکومت میں شامل ہونے والی دوسری بڑی پارٹی کہلوا سکتی تھی ۔ ایس ایف کے ایک تہائی امیدوار اپنی نشستیں کھو چکے ہیں اور اب اس کے پاس چوبیس سے گر کر صڑف سولہ پارلیمانی ارکان رہ گئے ہیں ۔ ایس ایف کے مقابلے میں، ریڈیکل وینسٹرا پارٹی کی پوزیشن بہت بہتر اور شاندار رہی ہے ۔
مبصرین اس پر متفق ہیں کہ ریڈیکل پارٹی کی چیئر پرسن مارگریٹھے ویسٹر گر نہ صرف حکومت سازی بلکہ حکومتی امور پر بھی نمایاں اثر و رسوخ حاصل کر سکتی ہیں ۔ ان کی پارٹی جو پہلے صرف آٹھ پارلیمانی نشستیں رکھتی تھی اب اس کے پاس سترہ نشستیں ہیں ۔
انتخابات کے بعد کل شام جب نتائج سامنے آنے شروع ہوئے تو سیاسی پارٹیوں کے حمایتیوں کی گہما گہمی اور پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر سیاسی ہلچل دید کے قابل تھی لیکن، جونہی نتائج سامنے آتے گئے تو بائیں بازو کے سرخ بلاک کے سامنے ، دائیں بازو کے نیلے بلاک کی خوشیاں ماند پڑنے لگیں ۔
حکمراں وینسٹرا پارٹی کے لارس لکے راسموسن نے اگرچہ پیشرفت کی اور ان کی پارٹی نے 47 پارلیمانی نشستیں حاصل کر لیں اور یوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا اعزاز بھی پا لیا ۔
مستعفی ہونے والی حکومت میں وینسٹرا پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شامل رہنے والی، بائیں بازو کی کنزرویٹوو پارٹی کے لیے موجودہ انتخابات ایک زبردست جھٹکا ثابت ہوئے اور پارٹی اپنے آدھے پارلیمانی ارکان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔ اب اس کے پاس صرف آٹھ پارلیمانی نشستیں ہیں
غیر ملکیوں مخالف سخت ترین رویہ رکھنے اور خود کو مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف قرار دینے والی، انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی کو حالیہ انتخابات میں اپنے تین ارکان کو چھوڑنا پڑا اور اب اس کے پاس 22 پارلیمانی نشستیں ہیں ۔
لیبرل الائینس پارٹی اپنی نمایاں کامیابی پر خود بھی حیران ہے ۔ اس نے 9 پارلیمانی نشستیں حاصل کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔
بائیں بازو کی انھد لسٹن پارٹی بھی پیچھے نہیں رہی ۔ سنہ دو ہزار سات میں کرائے گئے انتخابات کے مقابلے میں اب کی بار انھد لسٹن پارٹی نے تین گنا زیادہ کامیابی کے ساتھ پارلیمنٹ میں بارہ نشستیں حاصل کر لی ہیں ۔
مسیحیت کی نمائندگی کرنے والی، کرسچلی ڈیموکریٹک پارٹی کوئی ایک بھی پارلیمانی نشست حاصل نہیں کر سکی ۔
اب تک کے انتخابی نتائج کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی نو سیاسی پارٹیوں کے کامیاب ہونے والے ارکان کی تعداد کچھ یوں ہے

۔ بائیں بازو کے سرخ بلاک کی حمایت کرنے والی پارٹیوں نے کل پچاس اعشاریہ دو فیصد ووٹوں کے ساتھ، 89 پارلیمانی نشستیں حاصل کی ہیں ۔

۔ دائیں بازو کے نیلے بلاک کی حامی پارٹیوں نے کل انچاس اعشاریہ سات فیصد ووٹوں کے ساتھ 86 پارلیمانی نشستیں حاصل کی ہیں

مختلف پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح اور ان کے کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد

وینسٹرا ۔ چھبیس فیصد ووٹ اور، سنتالیس ارکان کامیاب
کنزرویٹوو ۔ چار اعشاریہ نو فیصد ووٹ اور، آٹھ ارکان کامیاب
ڈینش پیپلز پارٹی ۔ بارہ اعشاریہ تین فیصد ووٹ اور، بائیس ارکان کامیاب
لیبرل الائینس ۔ پانچ اعشاریہ صفر فیصد ووٹ اور، نو ارکان کامیاب
کرسچلی ڈیموکریٹ ۔ صفر اعشاریہ صفر آٹھ فیصد ووٹ اور، صفر رکن ۔ (یہ پارٹی پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہو سکی )۔
سوشل ڈیموکریٹ ۔ چوبیس اعشاریہ نو فیصد ووٹ اور، چوالیس ارکان کامیاب
ایس ایف ( سوشلسٹ پیپلزارٹی) ۔ نو اعشاریہ دو فیصد ووٹ اور، سولہ ارکان کامیاب
ریڈیکل وینسٹرا ۔ نو اعشاریہ پانچ فیصد ووٹ اور، سترہ ارکان کامیاب
انھد لسٹن پارٹی ۔ چھ اعشاریہ سات فیصد ووٹ اور، بارہ ارکان کامیاب

ڈنمارک میں الیکشن

ڈینش ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر پیا شاریگارڈ نے بیان دیا ہے کہ انکی پارٹی بدستور موجودہ حکومت کی حمائیت ہی کرے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں ڈینش انتخابات کی کو ئی خاص وجہ نہیں ۔ تاہم اگر یہی پارٹی بدستور برسر اقتدار رہی تو یہ ڈینش تاریخ کی

پاکستانی کمیونٹی پر فخر ہے، فردوس عاشق اعوان سے خصوصی انٹرویو

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سےدورہ ناروے کے موقع پر اردو فلک سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری تسلسل سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستانی کمیونٹی پر فخر ہے

کئی نارویجن لیڈر راتوں رات لیڈری کھو بیٹھے

نارویجن صوبائی اور مقامی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کے بعد کئی نارویجن سیاستدانوں نے اپنے عہدے کھو دیے۔ان میں بائیں پارٹی کے لیڈ (Helge solum Larsen) ہیلگے سولوم لارشن بھی شامل ہیں۔انہیں مشترکہ صوبائی سطح پر ایک فعال رکن اور کلیدی فرد سمجھا جاتا تھا۔سن 2011 کے الیکشن اس پارٹی کے لیے ناکامی کا پیغام بن گئے۔ان الیکشنز میں پارٹی صرف اسمبلی کی دو سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔ یہ تناسب 2005 کی نسبت بہت کم ہے۔اس مرتبہ پارٹی میں صرف بورگ ہلدے ( Borg Hilde) اور ٹرینے اسکائے گراندے Trene ski Granday)ہی پارلیمنٹ کی سیٹیں جیت سکی ہیں۔

پاکستانی تارکین وطن اور نارویجن الیکشن

تاہم انکا کہنا ہے کہ نارویجن سیاستدانوں کو اپنا پارٹی منشور بتانے کے لیے مسجدوں میں بھی آنا چاہیے تاکہ ہمیں بھی انکے مقاصد معلوم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کئی نارویجن سیاستدان مسجدوں میں بھی آتے تو ہیں مگر بہت کم ٹائم کے لیے ۔ اس طرح ہمیں انکی پارٹی کے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں ہوتی۔اگر وہ ذیادہ ٹائم دیں گے تو پھر پاکستانی اپنے