انٹرویو ، شازیہ عندلیب
معاون ، سفیان ضیائ
اس انٹرویو کا مقصد پاکستانی نو جوانوں کی رہنمائی اور انکے حوصلے بلند کرنا ہے۔ اس کالم مین آپکا تعارف ذہین اور نمایاں کارکردگی رکھنے والے پاکستانیوں سے کروایا جائے گا تاکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی طالبعلم بھی انہیں مشعل راہ بنا کر کامیابیاں حاصل کریں۔
سوال۔کیا آپکو پہلے سے توقع تھی کہ آپکو سال ٢٠١٠ کا اکنامکس کا بہترین طالبعلم قرار دیا جائے گا؟
جواب۔ نہیں مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔یہ اعزازصرف تعلیمی کارکردگی پر نہیں بلکہ سماجی اور اور غیر نسابی سرگرمیوں کو مد نظر رکھ کر بھی دیا گیا ہے۔
سوال ،آپکے خیال میں آپکی کامیابی کا بڑا سبب کیا ہے؟ کیا یہ کسی استاد کی وجہ سے ہے،والدین کی وجہ سے ادارہ کی وجہ سے یا سکا سبب کچھ اور ہے۔
جواب۔ یہ میری ذاتی محنت اور کوششوں کا پھل ہے۔میں نے ہمیشہ بڑی کامیابی حاصل کرنے کا سوچا۔ہمیشہ رکاوٹیں دور کر کے مشکل موضوعات اور مضامین کو سمجھنے کی کوشش کی۔اساتذہ تو بہت طرح کے ہیں۔لیکن حتمی طور پر یہ طالبعلم کی ذاتی کوشش ہوتی ہے جو اسے کامیاب کرتی ہے۔
سوال ۔کیا ایک طالبعلم کی کامیابی میں اسکے دوستوں کا حلقہء احباب بھی متاثر ہو سکتا ہے یا نہیں؟
اگر کسی طالبعلم کو کسی مضمون کا کوئی مشکل موضوع سمجھ نہ آ رہا ہو تو اسے اپنے دوسرے ساتھی طالبعلموں سے مدد لینی چاہیے۔میں نے انفرادی طور پر بہت محنت کی ہے اور کسی خاص گروپ کے ساتھ کام نہیں کیا۔جہاں تک سماجی گروپ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضروری ہے اپنے تعلیمی ادارے میں دوستوں کا نیٹ ورک بنایا جائے۔یہ تعلیمی زندگی کا اہم حصہ ہے۔
پچھلے تین برسوں میں آپ کے لیے تعلیمی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج کیا تھا؟
مجھے کافی مشکلات اور مسائل پیش آئے مگر میں نے ہار نہیں مانی۔سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ لوگ آپکی بات نہ سنیں اور نہ مانیںاور نہ ہی آپکا ساتھ دیں۔اسلیے ضروری ہے کہ سخت محنت کریں اور اپنے مقصد پہ ڈٹے رہیں۔تاکہ اپنا مقصد ضرور حاصل ہو۔اس طرح آپ اپنی رکاوٹیں دور کر کے منزل پا سکتے ہیں۔
آپکی فیملی کے آپ کے شاندار رزلٹ پہ کیا تاثرات تھے؟
میری فیملی نے میری کارکردگی کو سراہا اور اسے اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔میں نے بھی اپنوں کی آنکھوں میں خوشی کے تاثرات کو باعث فخر سمجھا۔
سوال۔آپکے مستقبل میں کیاکیریر پلانز ہیں؟
جواب۔پہلے میں اپنا ماسٹرز کروں گا اسکے بعد امریکہ کے کسی بہترین ادارے سے ایم بی اے کروں گا۔میں اپنا کیریر بطور مشیر کسی مالیاتی ادارے میں شروع کرنا چاہتا ہوں اسکے بعد میں کسی عالمی نوعیت کے ادارے میں جاب کروںگا۔
سوال۔آپکا پسندیدہ مضمون کون سا ہے؟
جواب۔میرا پسندیدہ مضمون حساب ہے۔
سوال ۔ جیسا کہ نارویجن اخبارات میں آپ نے بتا یا کہ آپ نے ماسٹرز کے لیے کوپن ہیگن یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔اس کی کوئی خاص وجہ؟
جواب۔اب میں نے کوپن ہیگن کے بجائے نارویجن یونیرسٹی برگن سے مزید تعلیم حاصل کنے کا ارادہ کیا ہے۔اس لیے کہ وہاں مجھے اعزازی بنیادوں پہ داخلہ مل رہا ہے۔وہاں سے مجھے ایم کی ڈبل ڈگری ملے گی۔اس لیے میں ایک سال ناروے میں اور ایک سال بیرون ملک تعلیم حاصل کروں گا۔اس طرح دو سالوں میں میں ڈبل ایم اے کر لوں گا۔
سوال۔آپ کے خیال میں ناروے میں مقیم پاکستانی لڑکیوں کی نسبت پاکستانی لڑکوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نسبتاکم کیوں ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کا ذیادہ شعور رکھتی ہیں دوسرے یہ کہ وہ تعلیم کے بہانے شادی کے بندھن سے دیر تک بچی رہیں۔اسکے مثبت نتائج یہ ہیں کہ غیر ملکی معاشروں میں پاکستانی لڑکیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہو گی۔یہ ایک اچھا رجحان ہے اسطرح پاکستانی قوم کا تشخص بیرون ملک میں بلند ہو گا۔انکی دیکھا دیکھی اب غیر ملکی لڑکے بھی اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
سوال۔آپکے فارغ اوقات کے مشاغل کیا ہیں؟
جواب۔میں فارغ وقت میں جم میں ایکسسائز کرنا، فٹ بال کھیلنا اور کمپیوٹر پہ چیٹ کرنا پسند کرتا ہوں۔
سوال۔کمپیوٹر نے آپکی تعلیمی کامیابی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
جواب۔کمپیوٹر کا ستعمال تعلیم میں لازمی ہے۔لیکن اسکا مجھ پہ کوئی خاص اثر نہیں پڑا سوائے اس کے کہ اس سے کام آسان ہو گیا ہے۔ اسکول کا سارا کام ذیادہ تر صفحات پہ کیا جاتا ہے
سوال ۔ مستقبل میں آپکا ارادہ نارویجن قوم کی خدمت کا ہے یا اپنی پاکستانی قوم کی بھی خدمت کریں گے؟
جواب۔میں ناروے میں پیدا ہوا ہوں اور اسی معاشرے میں پلا بڑھا ہوں گو کہ میرے والدین پاکستانی ہیں۔میری روزمرہ کی زبان نارویجن ہے اس لیے میرے لیے یہاں کیریر بنانا آسان ہے۔اسکے ساتھ ساتھ میں بین الاقوامی مواقع بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔اسطرح ہو سکتا ہے کہ میری اچھی کارکردگی سے پاکستان کا نام بھی روشن ہو۔
سوال۔ آپکے خیال میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے آپکو کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
جواب۔مجھے توقع ہے کہ امریکی تعلیم کی وجہ سے مجھے بین لاقوامی سطح کی اچھی جاب مل سکتی ہے۔
سوال۔ سوال۔کیا آپ غیر ملکیوں کے لیے نارویجن اخبارات اور میڈیا کے کردار سے مطمئن ہیں؟
جواب۔ نہیں بالکل نہیں! نارویجن میڈیا ناروے میں بسنے والے تارکین وطن کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔غیر ملکیوں میں کئی مثبت خوبیاں بھی ہیں جو انہیں اجاگر کرنی چاہییں
سوال۔آپ کے بارے میں اخبارات نے لکھا ہے کہ آپ امریکہ سمر کورس کرنے جا رہے ہیں ۔ اس سے آپکی کیا توقعات وابستہ ہیں؟
جواب۔میرا نام ناروے کے ان چھ بہترین طلباء میں شامل ہوں جو کہ لیڈر شپ کے کورس پر امریکہ جائیں گے۔ میں وہاں بنیادی طور پر فلاڈفیا جائوں گا۔اسکے بعد ہمارا گروپ نیو یارک،جرسی اور واشنگٹن ڈی سی جائے گا۔ وہاں ہم لوگوں کو وائٹ ہائوس کی سیر بھی کروائی جائے گی۔ مجھے وہائٹ ہاؤس دیکھنے کی بہت خوشی ہے۔
سوال۔ کیا آپ نیٹ پر اخبار پڑھتے ہیں؟
جواب۔جی ہاں میں نیٹ پر نارویجن اخبارات پڑھتا ہوں۔
سوال۔ بیرون ملک رہنے والوں کے لیے مادری زبان سیکھنے کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب۔ نارویجن معاشرے میں رہنے کے لیے یہاں کی زبان غیر ملکیوں کے لیے بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادری زبان پر بھی عبور ضروری ہے۔
سوال۔آخر میں آپ سے سوال ہے کہ ناروے میں بسنے والے پاکستانی طالبعلموں کے لیے آپکی کیا نصیحت ہے کہ وہ کس طرح اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں؟
جواب۔ اعلیٰ تعلیم بہت ضروری ہے۔ وہ آپکو یقینی تحفظ دیتی ہے۔اگرچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر طالبعلم اپنی ناکامی کا سبب ملکی نظام اور سسٹم کو دیتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں ہے۔بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تلیم کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے سامنے ڈٹے رہیں۔اسطرح کچھ بھی ناممکن نہیں رہے گا۔انہیں چاہیے کہ معاشرے میں اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے اعتماد حاصل کریں۔