کہانی : رضیہ بی بی
پلوشہ ایک معصوم لڑکی تھی، جس نے پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اس کی شادی ایک نارویجن پاکستانی سے ہوئی، جو اسے ایک خوشحال زندگی کا خواب دکھا کر ناروے لے آیا۔ پلوشہ اپنی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ اس اجنبی سرزمین پر آئی، مگر اس کی زندگی جلد ہی ایک قید خانے میں بدل گئی۔ اس کا شوہر ایک خودغرض اور بے حس انسان تھا، جو اسے نہ زبان سیکھنے دیتا تھا، نہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیتا تھا۔ پلوشہ کی دنیا اس کے گھر کی چار دیواری تک محدود ہو چکی تھی، جہاں اس کا کام صرف بچوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام تھے۔
ایک دن پلوشہ کی چھ سالہ بیٹی اسکول سے واپس آئی تو دروازے پر تالہ لگا ہوا تھا۔ پلوشہ اندر قید تھی، اور بچی باہر برفانی سردی میں بے یار و مددگار کھڑی تھی۔ تھک ہار کر وہ سیڑھیوں پر ہی سو گئی۔ رات گئے جب اس کا باپ نشے میں دھت گھر پہنچا تو اس نے اپنی بیٹی کو باہر سوتے ہوئے پایا۔ پلوشہ اندر بند، اپنی بیٹی کی بے بسی کو سن کر رو رہی تھی۔ یہ لمحہ اس کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اس نے طے کر لیا کہ اب وہ مزید یہ ظلم برداشت نہیں کرے گی۔
رات کے اندھیرے میں، پلوشہ اپنی بیٹی کو لے کر کرائسس سینٹر پہنچی۔ وہاں اس نے اپنی کہانی سنائی اور مدد طلب کی۔ کرائسس سینٹر کے عملے نے اسے تسلی دی، تحفظ کا یقین دلایا، اور قانونی مدد فراہم کی۔ پلوشہ کو پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے بھی حقوق ہیں، اور وہ ان حقوق کے ذریعے اپنی زندگی بدل سکتی ہے۔
اس نے ہمت کی، اپنے شوہر کے خلاف قانونی کارروائی کی، اور اپنی آزادی کی جنگ لڑی۔ کرائسس سینٹر کی مدد سے پلوشہ نے نہ صرف خود کو اس قید سے آزاد کیا بلکہ اپنی بیٹیوں کے لیے بھی ایک محفوظ اور بہتر زندگی کا راستہ ہموار کیا۔ اس نے ناروے کی زبان سیکھی، نوکری تلاش کی، اور اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی۔ اب اس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے خوداعتمادی تھی۔
پلوشہ کی کہانی ان تمام عورتوں کے لیے ایک سبق ہے جو ظلم سہتی ہیں اور خاموش رہتی ہیں۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ جب ایک عورت ہمت کرتی ہے تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ کر سکتی ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پہلا قدم سب سے مشکل ہوتا ہے، لیکن یہی قدم آزادی اور خودمختاری کی طرف لے جاتا ہے۔